حزب اللہ کے خلاف تفتیش، امونیم نائٹریٹ: جرمن حکام کو علم تھا
7 اگست 2020
لبنانی دارالحکومت کی بندرگاہ میں ہونے والے حالیہ تباہ کن دھماکوں کے پس منظر میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف تفتیش کے دوران جرمن انٹیلیجنس حکام کو جرمنی میں امونیم نائٹریٹ کے بہت بڑے ذخیرے کی اطلاع ملی تھی۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ سات اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملک کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی BfV نے تصدیق کر دی ہے کہ اس کے ماہر تفتیش کاروں کو جرمنی میں بڑی مقدار میں ایسے کیمیائی مادوں کے بڑے ذخیرے کی اطلاع ملی تھی، جن میں انتہائی دھماکا خیز امونیم نائٹریٹ بھی شامل تھا۔
تحفظ آئین کا وفاقی دفتر کہلانے والی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں جرمنی میں لبنانی تنظیم حزب اللہ کے خلاف چھان بین کی گئی تھی۔ اس چھان بین کے دوران ماہرین کو 2016ء میں اندرون ملک ذخیرہ کردہ خطرناک کیمیائی مادوں کے ایک بڑے ذخیرے کا علم ہوا تھا۔
بی ایف وی کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ کیمیائی مادے جرمنی میں 'کولڈ پیکس‘ (Cold-Packs) کے طور پر ذخیرہ کیے گئے تھے۔ بعد میں یہ کیمیکلز جرمنی سے باہر پہنچا دیے گئے تھے۔ تاہم ساتھ ہی اس جرمن خفیہ ایجنسی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا، ''اس بات کا اب تک کوئی ثبوت یا ایسی کوئی اطلاع دستیاب نہیں کہ جرمنی سے بیرون ملک بھیجے گئے ان دھماکا خیز کیمیائی مادوں کا بیروت کی بندرگاہ میں ذخیرہ کردہ بہت خطرناک مادوں سے کوئی تعلق تھا۔‘‘
بیروت کی بندرگاہ زیادہ تر حزب اللہ کے کنٹرول میں
بیروت کی بندرگاہ میں ہونے والے حالیہ المناک دھماکوں کے نتیجے میں شہر کا ایک بڑا حصہ بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں 130 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔ لبنانی تفتیشی ماہرین کی رائے میں ان دھماکوں کی وجہ ممکنہ طور پر ایسا ڈھائی ہزار ٹن سے زیادہ امونیم نائٹریٹ تھا، جو انتہائی دھماکا خیز ہونے کے باوجود بیروت پورٹ کے ایک بہت بڑے گودام میں غیر محفوظ انداز میں رکھا گیا تھا۔ ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ بیروت کی یہ بندرگاہ زیادہ تر حزب اللہ ہی کے کنٹرول میں تھی۔
قبل ازیں جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس سال اپریل میں جرمنی میں لبنانی تنظیم حزب اللہ کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے کی رپورٹ
ان کیمیائی مادوں اور امونیم نائٹریٹ سے متعلق ڈی پی اے نے جرمن داخلی انٹیلیجنس سروس سے جو استفسار کیا، اس کی وجہ ایک اسرائیلی نشریاتی ادارے کی اس سال کے اوائل میں نشر کی جانے والی ایک رپورٹ بنی تھی۔
دنیا بھر میں ہونے والے تباہ کن دھماکے
لبنانی دارالحکومت بیروت میں دھماکوں نے اس شہر بلکہ پورے ملک ہی کو لرزا کر رکھ دیا۔ آئیے دنیا بھر میں حالیہ کچھ عرصے میں ہوئے مختلف دھماکوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
امونیم نائٹریٹ کا ’لاوارث گودام‘
بیروت میں ہونے والے اس خوفناک اور غیرمعمولی دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ یہ دو سو کلومیٹر دور تک سنائی گئی۔ اس کی وجہ سے شہر کا ایک بڑا حصہ تباہ ہوا۔ اس دھماکے کی وجہ 2750 ٹن امونیم نائیٹریٹ تھی، جو بیروت کی بندرگاہ پر گزشتہ چھ برسوں سے ذخیرہ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Robayo
دھماکے کی چھتری
بیروت میں ہونے والے دھماکے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے فقط دس گنا کم تھی۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ چند ہی لمحوں میں شہر کا ایک وسیع حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
تصویر: Reuters/K. Sokhn
ہیوسٹن کی آگ
رواں برس 24 جنوری کو امریکی شہر ہیوسٹن میں واٹسن گرائنڈنگ ایند مینوفیکچرنگ کا پلانٹ دھماکے سے پھٹ پڑا۔ اس دھماکے کی وجہ سے ملبے کے ٹکڑے ڈیڑھ میل دور تک اڑتے ہوئے پہنچے۔ اس واقعے میں جائے حادثہ کے قریب واقع دو سو مکانات اور کاروباری مراکز کو نقصان پہنچا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/KTRK-TV
شیانگ شوئی کیمیکل پلانٹ دھماکا
گزشتہ برس 21 مارچ کو چین کے صوبے جیانگسو کے علاقے چینگیگانگ کے ایک کیمیائی پلانٹ میں دھماکا ہوا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 78 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی نتیجے میں کئی میل دور تک عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ اس پلانٹ میں دھماکے کے ساتھ پھیلنے والی زہریلی گیس کی وجہ سے بھی درجنوں افراد متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance
میکسیکو پائپ لائن دھماکا
گزشتہ برس جنوری ہی میں میکسیکو کی ہیڈالگو کی ریاست میں پیٹرول کی ایک پائپ لائن پھٹ گئی۔ حکام کے مطابق تیل چوری کرنے کی کوشش کرنے والوں نے کسی جگہ پر اس پائپ لائن کو ٹھیک سے بند نہیں کیا تھا۔ یہ واقعہ اور بھی زیادہ خون ریز اس لیے ہوا کیوں کہ دھماکے کے وقت عام افراد اس پائپ لائن سے پیٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اس واقعے میں 137 افراد ہلاک جب کہ دیگر درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
بہالپور کا آئل ٹینکر دھماکا
پاکستانی صوبے پنجاب کے علاقے بہالپور میں اس وقت ہر طرف موت کا رقص شروع ہو گیا، جب ایک تیل کے ٹینکر کے حادثے کے بعد مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد بہنے والا تیل چرا رہی تھی کہ دھماکا ہو گیا۔ اس واقعے میں مجموعی طور پر دو سو سے زائد افراد لقمہ اجل بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress
6 تصاویر1 | 6
اس رپورٹ میں چینل 12 نامی نشریاتی ادارے نے اپنے ذرائع کا نام لیے بغیر یہ بتایا تھا کہ اسرائیل کی خارجہ سیکرٹ سروس موساد نے جرمن انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اطلاع دی تھی کہ حزب اللہ نے جنوبی جرمنی میں واقع گوداموں میں امونیم نائٹریٹ جمع کر رکھا تھا۔
جرمنی میں ماضی میں امونیم نائٹریٹ کے بہت بڑی مقدار میں ذخیرہ کیے جانے کے حوالے سے جب ڈی پی اے نے وفاقی جرمن وزارت داخلہ سے رابطہ کیا، تو اس وزارت کی طرف سے جواباﹰ صرف یہ کہا گیا، ''جرمن سکیورٹی اداروں کی کارکردگی اور سرگرمیوں کے تحفظ کی خاطر اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
بیروت دھماکے، لبنان میں تین روزہ سوگ
02:08
باویریا کی صوبائی حکومت پر تنقید
جنوبی جرمن صوبے باویریا کی ریاستی پارلیمان میں ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اسی رپورٹ کی وجہ سے ملک کی داخلی انٹیلیجنس سروس کا موقف سامنے آنے سے بھی پہلے میونخ میں صوبائی حکومت سے رابطہ کر لیا گیا تھا۔
اس بارے میں ایف ڈی پی کے صوبائی پارلیمانی حزب کے سربراہ مارٹن ہاگن نے ڈی پی اے کو بتایا، ''باویریا کو مسلمان عسکریت پسندوں کی طرف سے دھماکا خیز مواد کی ذخیرہ گاہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
مارٹن ہاگن نے میونخ میں صوبائی حکومت سے اس سوال کے تحریری جواب کی درخواست بھی کی ہے کہ آیا باویریا میں حکام کو دھاکا خیز کیمیائی مادوں کی ایسی ذخیرہ گاہوں کی موجودگی کی کوئی اطلاع دی گئی تھی۔ ساتھ ہی باویریا کی حکومت سے اس بارے میں بھی تحریری وضاحت طلب کی گئی ہے کہ آیا ایسی کوئی ذخیرہ گاہیں واقعی دریافت بھی ہوئی تھیں اور کیا وہاں سے امونیم نائٹریٹ بھی قبضے میں لیا گیا تھا؟
اس بارے میں باویریا کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ''ہمیں تو ایسی کسی بات کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘‘
م م / ش ح (ڈی پی اے)
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔