لقمان سلیم لبنان میں شعیہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ پر کھل کر نکتہ چینی کرنے کے لیے جانے جاتے تھے جبکہ گروپ کے حامی برسوں سے انہیں ہراساں بھی کرتے رہے تھے۔
اشتہار
لبنان کے ممتاز دانشور لقمان سلیم، جو عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ پر اپنی کھلی تنقید کے لیے بھی معروف تھے، جمعرات چار فروری کی صبح اپنی کار میں مردہ پائے گئے۔ ایک سکیورٹی افسر کا کہنا تھا کہ ان پر نزدیک سے متعدد بار فائرنگ کی گئی اور انہیں کئی گولیاں لگیں۔
اٹھاون سالہ لقمان سلیم لبنان کی شیعہ برادری میں واحد سیکولر آواز مانے جاتے تھے۔ وہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی پالیسیوں پر اکثر نکتہ چینی کے لیے بھی معروف تھے اور اس کی وجہ سے انہیں بارہا نہ صرف دھمکیاں ملیں بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا جاتا تھا۔
لبنان کے ایک سینیئر سکیورٹی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''وہ اپنی کار میں مردہ پائے گئے، ایک گولی ان کے سر میں لگی تھی جس سے ان کی موت ہوگئی۔''
ایک دیگر فارینزک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ لقمان سلیم کے سینے، سر اور گردن میں گولی ماری گئی۔ سکیورٹی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہلاک کرنے کے بعد حملہ آورسلیم کا شناختی کارڈ، ان کا فون اور بندوق لے گئے۔
اس سے قبل سلیم کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ بدھ کی شام سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا یا ہے۔ وہ جنوبی لبنان کے عدّوسیح نامی گاؤں کے پاس کار میں مردہ پائے گئے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بیروت واپس آرہے تھے۔
اشتہار
خوفناک جرم
مقامی میڈیا کے مطابق لبنان کے وزیر داخلہ محمد فہمی نے اس قتل کو خوفناک جرم سے تعبیر کیا۔ سلیم کی بہن رشا العمیر نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ چونکہ، ''وہ ایک سیاسی موقف رکھتے تھے اسی لیے انہیں نشانہ بنایا گیا۔''
سلیم کے قریبی دوست اور تاریخ کے لیکچرر مکرم رباح کا کہنا تھا کہ یہ ایک، ''بڑا المیہ ہے۔ جو بھی لقمان کو جانتا ہے وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ ان کے دشمن کون تھے۔''
لقمان سلیم نے لبنان میں ہونے والے تشدد اور اس کی دستاویز بندی کے لیے 'امم ڈاکیومینٹیشن' نامی ایک ریسرچ ادارہ قائم کیا تھا تاکہ اس کی مدد سے ملک کو مزید تشدد سے بچا سکیں۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ بیروت کے جنوبی علاقے میں رہتے تھے۔ وہ فلم سازی کے لیے ایک پروڈکشن ہاؤس بھی چلا تے تھے جہاں اکثر سیاسی امور پر بحث و مباحثے کے ساتھ ساتھ آرٹ شوز بھی ہوتے تھے۔
دھمکیوں کا طویل سلسلہ
لبنان کی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے حامی اکثر لقمان سلیم پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ ایک امریکی ایجنٹ ہیں۔ 2019 میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد ان کے گھر پر ''وقت آئے گا'' لکھ کر غدار کا لیبل لگا دیا گیا تھا۔
سلیم، لبنان میں حزب اللہ کی قوت اور طریقہ کارپر اکثر نکتہ چینی کرتے رہتے تھے۔وہ لبنان کی مکمل خود مختاری، سالمیت اور تنوع کے حق میں تھے۔ سن 2005 میں سمیر قیصری کے قتل کے بعد وہ لبنان میں ہلاک کیے جانے والے انتہائی ممتاز دانشور ہیں۔
بیروت کی بندرگار پر ہولناک دھماکے کے چھ ماہ بعد ان کا قتل ہوا ہے۔ اس دھماکے سے زبردست تباہی ہوئی تھی اور چونکہ حزب اللہ کی بندرگاہ اور کسٹم کی سکیورٹی میں کافی عمل دخل ہے اس لیے اس دھماکے کا الزام بھی اسی پر عائد کیا گیا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔