حسنی مبارک کا عہد اور مصری معاشرہ
21 دسمبر 2010گزشتہ ماہ مصر میں ہونے والے الیکشن میں حکومتی جماعت تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اقتدار کو ایک بار پھر تسلسل فراہم کیا۔ ان انتخابات میں بظاہر مصری عوام نے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔اس کی ایک مثال 68 سالہ محمد عبد الفتح ہیں جو پیشے کے لحاط سے بڑھئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قاہرہ یا اسکندریہ میں الیکشن کوئی معنی نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں " لوگ سیاست کے نام سے بیزار ہو گئے ہیں۔ ہر امیدوار پچھلے امیدوار سے بد تر ہے ۔ یہ لوگ پیسے سے ووٹ خریدتے ہیں۔ یہ ایک بڑے مافیا کی طرح ہیں۔"
ایسے ہی خیالات کا اظہار 52 سالہ انشورنس کمپنی کے ملازم زنہار رشدی نےبھی کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ" ارکان پارلیمنٹ ایک بار اسمبلی میں نشت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ اپنے علاقوں کو معمول کے مطابق بھول جاتے ہیں۔یہاں کا پورا سسٹم ایسے ہی لوگوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہاں کاروباری شخصیات کو معافی آسانی سے دے دی جاتی ہے جس کی آڑ میں وہ جو چاہیں حاصل کرتے ہیں۔"
ان حالات میں تبدیلی آنےکی کوئی امید ہے کہ نہیں اس بارے میں مصری صدر حسنی مبارک کے منصوبوں کے بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے۔سعودی فرمانرواں شاہ عبداللہ کے بعد عرب دنیا کےدوسرے سب سے ضعیف رہنما اور صحت کے حوالے سے خدشات کا شکار مصری صدر حسنی مبارک اگر اگلے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں یا اس کی مدت پوری نہ کر پائیں تو ان کی جگہ کون لے گا، اس کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔
گو کہ سرکاری سطح پر اس بات سے انکار کیا جا رہا ہے تاہم زیادہ تر مصری باشندوں کا یہ ماننا ہے کہ صدر مبارک نے کاروباری شخصیت اور اپنے سیاستدان بیٹے جمال کو اپنے بعد اس عہدے کے لئے تیار کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک جمہوری ملک میں صدر مبارک کی جانب سے اپنا عہدہ اپنے بیٹے کو منتقل کرنے کی قیاس آرائیاں عوام کے لئے کوئی خاص مسرور کن نہیں ہیں۔
وکی لیکس میں شائع ہونے والی ایک خفیہ کیبل کے مطابق امریکی سفیر مارگریٹ سکوبی کا کہنا ہے کہ "صدر مبارک طاقتور لیکن منصف رہنما لانے کے حامی ہیں لیکن جب ان کے اپنے بیٹے کے لئے اس مقررہ معیار پر اترنے کی بات آتی ہے تو لگتا ہے کہ صدر مبارک نے جمال مبارک میں عسکری تجربے کی کمی کی وجہ سے کسی حد تک رعایت رکھی ہوئی ہے۔" ایک اور خفیہ کیبل میں مارگریٹ لکھتی ہیں کہ "اقدار کی قرینے سے منتقلی کے لئے یقیناﹰ صدر مبارک خدا کے بعد اپنی ہر جگہ موجود فوج اور شہری سکیورٹی سروس پر بھروسہ کرتے ہیں"۔
دوسری جانب مصر میں طبقاتی فرق بھی بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ایک طرف تو پالم ہلز جیسے پوش علاقے ہیں جہاں گھروں میں ماربل کے فرش اور ٹائیلز سے مزّین چھتیں ہیں جن کے ٹیرس سے کیفے، ٹینس کورٹ، فٹ بال پچ اور سوئمنگ پولز کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف دارالحکومت میں ایسے علاقے کثرت سے ہیں جہاں لوگ بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی لائی گئی معاشی اصلاحات نے مصری باشندوں کو بے پناہ فائدہ دیا ہے۔ مصر کے وزیر خزانہ کے مطابق عام طور پر سڑکوں پر لوگ آپ کو کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی طرز زندگی میں بہت بہتری آئی ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عابد حسین