1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حسن روحانی کے لیے نئے سیاسی چیلنج

عاطف بلوچ28 ستمبر 2013

ایرانی صدر حسن روحانی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے بعد ہفتے کے دن وطن واپس پہنچ گئے۔ جہاں ان کے حامیوں نے ان کی کوششوں کو سراہا، وہاں ان کے مخالفین نے ’امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔

تصویر: Getty Images

ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہونے سے قبل اس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم جب وہ ہفتے کے دن وطن واپس لوٹے تو ان کے اس دورے سے جتنی توقعات وابستہ کی گئی تھیں، ان سے کہیں زیادہ توقعات پوری ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

ناقدین کے بقول ایرانی صدر حسن روحانی کے لیے بڑا چیلج یہ ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے اعتماد سازی کی فضا میں کس طرح بہتری پیدا کرتے ہیں۔ روحانی کے قریبی ساتھیوں میں مغربی ممالک سے تعلیم یافتہ شخصیات بھی شامل ہیں، جو مغربی ممالک کے ساتھ تہران حکومت کے مذاکرات میں بہتری پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

روھامی کی وطن واپسی پر تہران کے ہوائی اڈے پر امریکا مخالف مظاہرینتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی اے پی نے مبصرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کے کامیاب دورے کے بعد اب روحانی انتظامیہ کو نئے سفارتی روابط کو فعال بنانے کے لیے ملکی سطح پر سیاسی عمل کو تیز تر کرنا ہو گا۔ تاہم اس حوالے سے ایران کے طاقتور پاسداران انقلاب کے اعلیٰ رہنماؤں کو ایک رکاوٹ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جو ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے غیر لچکدار مؤقف کے حامل تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم ایرانی صدر نے کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام سے متعلق امن مذاکرات کے لیے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے انہیں اختیارات دے رکھے ہیں۔

حسن روحانی جب ہفتے کے دن تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر پہنچے تو ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھی، جنہوں نے روحانی کے لیے ’امن کے رہنما‘ کے نعرے بلند کیے۔ ان اصلاح پسندوں نے امن کے لیے روحانی کو کوششوں کو بھی سراہا۔ تاہم دوسری طرف کٹر نظریات کے حامل قریب سو افراد بھی وہاں موجود تھے، جنہوں نے نہ صرف ’امریکا مردہ باد‘ کے نعرے لگائے بلکہ ساتھ ہی روحانی کی گاڑی پر ایک جوتا بھی دے مارا تاہم اے ایف پی نے بتایا ہے کہ یہ جوتا ان کی گاڑی کو نہیں لگا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب تک روحانی کو سپریم لیڈر کی حمایت حاصل ہے، انہیں ایران کے جوہری پروگرام بلکہ دیگر خارجہ امور پر بھی مذاکرات کرنے کی کھلی اجازت ہو گی۔ لیکن ایسے امکانات بہر حال موجود ہیں کہ پاسداران انقلاب اور دیگر کٹر نظریات کے حامل دھڑے سپریم لیڈر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ابھی ایسے عناصر کو روحانی اور اوباما کی اس ٹیلی فونک گفتگو کو بھی ہضم کرنا ہے، جو دونوں ممالک کے صدور کے مابین قریب 35 برس بعد ہونے والا پہلا براہ راست رابطہ ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ پاسداران انقلاب کے کمانڈوز نے گزشتہ ہفتے ہی روحانی کو خبردار کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سالانہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر کے ساتھ ہاتھ ملانے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے۔

ایرانی صدر روحانی اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ایتصویر: picture-alliance/dpa

ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے تہران حکومت پر اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اُن کے نتیجے میں اس اسلامی ملک کی اقتصادیات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ عرصے میں ایران میں نہ صرف بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ساتھ ہی افراط زر کی شرح بھی انتہائی زیادہ ہو چکی ہے۔ کچھ مبصرین کے بقول ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے تناطر میں شاید سپریم لیڈر نے روحانی کو عالمی طاقتوں کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے ہری جھنڈی دکھائی ہے۔

امریکا اور اسرائیل اور متعدد یورپی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے تحت ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تاہم تہران حکومت ہمیشہ ہی کہتی آئی ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ ایک تازہ پیشرفت میں روحانی نے یہ بھی کہا ہے کہ جوہری ہتھیاراس اسلامی ملک کی اقدار کے منافی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں