حسین حقانی کا استعفیٰ منظور ہوگیا
22 نومبر 2011میمو گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے تنازعات میں گھرے ہوئے حقانی نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اسلام آباد میں سول اور فوجی قیادت سے ملاقات کی۔ پہلے ایوان صدر اور پھر ایوان وزیراعظم میں کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا شریک ہوئے۔ اس ملاقات کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی حکومتی ترجمان نے اس بارے میں کوئی وضاحت کی ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق حسین حقانی نے اس ملاقات میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس خفیہ مراسلے سے کوئی تعلق نہیں جو پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز نے امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔
حسین حقانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ ان کے اوپر لگائے گئے الزامات کی فورینسک تحقیقات نہیں کی گئیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حسین حقانی کو اس معاملے میں ملاقات کے دیگر شرکاء کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ڈی جی، آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے اس خفیہ مراسلے کے حوالے سے کچھ اہم ثبوت بھی پیش کیے۔
خیال رہے کہ منصور اعجاز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ڈی جی، آئی ایس آئی کے ساتھ ملاقات کر کے انہیں اس خفیہ مراسلے کے بارے میں کچھ ثبوت دیے تھے۔ادھر منگل کے روز پاکستانی وزیر دفاع احمد مختار نے کہا کہ حسین حقانی کے معاملے پر ہونے والی اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں نتیجہ خیز ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سازش بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘‘ایک دو دن میں یہ ملاقاتیں مکمل ہو جائیں گی۔ ہمیں سفیر (حسین حقانی) کو اپنی صفائی کا مکمل موقع دینا چاہیے اور انہیں اپنی معصومیت ثابت کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ہی حکومت کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اگر کوئی قصور وار نکلا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور ہوگی۔''
دوسری جانب پاکستان میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے میمو گیٹ کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ راولپنڈی چیمبر آف کامرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیمرون منٹر نے کہا کہ امریکہ میمو کے معاملے پر ‘انتظار کرو اور دیکھو’ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی کے مستقبل کا فیصلہ پاکستانی قیادت ہی کو کرنا ہے اور امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا فروغ اور سیاسی استحکام چاہتا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں