لیبیا میں مہاجرین کے کیمپ پر کیے گئے فضائی حملوں میں ہونے والی ہلاکتیں بڑھ کر ترپن ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب اس حملے کے تناظر میں لیبیا کے جنگی سردار حفتر پر ترک صدر نے شدید تنقید کی ہے۔
اشتہار
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ لیبیا کے جنگی سردار خلیفہ حفتر کی حیثیت محض ایک قزاق کی سی ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب جنگ زدہ شمالی افریقی ملک لیبیا ایک مرتبہ پھر مسلح کشیدگی اور تناؤ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
ایردوآن نے اس امید کا بھی اظہار بھی کیا ہے کہ جلد ہی عام انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی اور لیبیا کے عوام جمہوری طور پر نمائندے منتخب کریں گے۔
خلیفہ حفتر نے ترکی کے خلاف سخت موقف اپنا رکھا ہے اور اس کی وجہ شاید ترک صدر کا وہ بیان ہے، جس میں انہوں نے طرابلس حکومت کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ گزشتہ ماہ اپنے اعترافی بیان میں ایردوآن نے کہا تھا کہ لیبیا میں توازن پیدا کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں۔ حفتر کو ترکی کے مخالف ممالک متحدہ عرب امارات اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ لیبیا میں مہاجرین کے کیمپ پر فضائی حملے کے بعد فرار ہونے والے مہاجرین پر محافظوں نے فائرنگ بھی کی۔ دوسری جانب مہاجرین کے حراستی مرکز پر ہوئے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر ترپن ہو گئی ہے اور ان میں چھ بچے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز یہ تعداد چوالیس تھی۔ قبل ازیں اقوام متحدہ نے بتایا تھا کہ دو فضائی حملوں میں ایک ایسے عارضی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں 120 سے زیادہ مہاجرین مقید کیے گئے تھے۔
اس حملے پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اسے خوفناک اور ظالمانہ فعل قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس حملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اسی دوران منقسم سلامتی کونسل مہاجرین کے کیمپ پر کیے جانے والے اس حملے کی مذمت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
لیبیا میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت نے بھی اس حملے کو خوفناک قرار دیا ہے۔ یہ حملہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے نواحی علاقےتاجورا میں واقع مہاجرین کے ایک عارضی کیمپ پر کیا گیا۔ بچ جانے والوں کے مطابق حملے کے بعد کیمپ میں ہر طرف انسانی جسموں کے ٹکڑے اور خون بکھرا ہوا تھا۔
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب غسان سلامے کا کہنا ہے کہ اس حملے کو جنگی جرائم کے طور پر لیا جانا چاہیے اور ملوث افراد کو جنگی جرائم کے تحت انصاف کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ سلامے کے مطابق یہ حملہ اُن لاچار افراد پر کیا گیا جو بہتر زندگی کے حصول میں مشکلات کا شکار ہو کر ایک پناہ گاہ میں مقیم تھے۔
ع ح ، ح ا، نیوز ایجنسیاں
لیبیا: پانی کا بحران شدت اختیار کرتا ہوا
تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا کبھی شمالی افریقہ کا امیر ترین ملک تھا۔ لیکن اس ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے حصوں میں پینے کے پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
بنیادی سہولیات کی کمی
لیبیا میں پانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر ملک کے مغربی حصوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے اس حصے میں پانی فراہم کرنے والے 149 پائپوں میں سے 101 تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
ماڈرن واٹر پائپ لائن سسٹم میں خرابی
لیبیا بنیادی طور پر ایک صحرائی علاقہ ہے۔ سابق آمر معمر قذافی نے اسی کی دہائی میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں پائپ لائن سسٹم بچھایا تھا، جسے ’گریٹ مین میڈ ریور‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیبیا کی ستر فیصد آبادی کو صاف پانی اسی نظام کے تحت فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ نظام زوال کا شکار ہے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
خانہ جنگی اور افراتفری
سن دو ہزار گیارہ میں قذافی کو زوال کے بعد قتل کر دیا گیا تھا لیکن تب سے یہ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ طرابلس حکومت کمزور ہے اور ملک کے سبھی حصوں کو کنٹرول نہیں کرتی۔ دوسری جانب جنرل خلیفہ حفتر کی فوج ملک کے تمام بڑے مشرقی حصوں پر قابض ہے۔
تصویر: AFP/M. Turkia
نشانہ طرابلس ہے
خلیفہ حفتر کی فوج (ایل این اے) مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے واٹر پائپ لائن کو استعمال کرتی ہے۔ مئی میں خلیفہ حفتر کے حامی جنگجوؤں نے واٹر سپلائی اسٹیشن پر قبضہ کرتے ہوئے ملازمین کو پانی بند کرنے پر مجبور کیا۔ ایک قیدی کی رہائی کے لیے دو دن طرابلس کا پانی بند رکھا گیا۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
پانی بطور جنگی ہتھیار
یہ صرف مسلح گروپ ہی نہیں ہیں جو پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں، جو پائپوں پر لگے تانبے کے ویل ہیڈز چرا لیتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے فریقین کو خبردار کر رکھاہے کہ پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
صحت کے مسائل
یونیسیف کے ترجمان مصطفیٰ عمر کے مطابق اگر ان مسائل کا کوئی حل نہ ڈھونڈا گیا تو مستقبل میں لیبیا کے چالیس لاکھ باشندوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ختم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس اے اور ہیضے جیسی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
پانی بھی قابل استعمال نہیں
لیبیا کے بہت سے حصوں میں آنے والا پانی بھی آلودہ ہے۔ بیکڑیا یا نمک کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ استعمال کے قابل نہیں۔ اکثر اس پانی کو پینے سے لوگ مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔