حفیظ شیخ کی رخصتی: کیا اقتصادی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی؟
عبدالستار، اسلام آباد
30 مارچ 2021
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے پر ملک کے اقتصادی، مالیاتی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ اس حکومتی فیصلے نے کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔
اشتہار
ناقدین پوچھ رہے ہیں کہ کیا مشیر خزانہ کو ہٹانے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملے گا؟ آیا ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہو گی؟ اور کیا آئندہ دنوں میں کابینہ میں نئے چہرے بھی سامنے آئیں گے، جو غیر سیاسی چہروں کے بجائے سیاسی شخصیات کے ہوں گے؟
حالیہ دنوں میں وزیر اعظم عمران خان نے نا صرف حفیظ شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا بلکہ پٹرولیم کے مشیر ندیم بابر کو بھی ان کی ذمے داریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ شاید اس سے ملک کے معاشی حالات میں تبدیلی آئے۔ وہ ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت کو دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تاہم ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کے جانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وزیر اعظم کی اقتصادی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں اور ان کی اصلاح کرنا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی جانا چاہیے۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور حفیظ شیخ نے وزیر اعظم کو اقتصادی معاملات کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا اور ان کو گمراہ کیا۔ اسٹیٹ بینک کے حوالے سے بھی وہ بل کابینہ میں ایک ایسے وقت پر لائے، جب سینیٹ کے الیکشن میں صرف چند ہی روز باقی رہ گئے تھے اور حکومت کی تمام تر توجہ سینیٹ کے الیکشن کی طرف تھی۔ اس عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اس بل کو منظور کرا لیا، جو پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہے۔‘‘
پاکستان کے بارے ميں دس منفرد حقائق
دنيا کے ہر ملک و قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی ميدان ميں شہرت کے افق تک پہنچا جائے۔ پاکستان بھی چند منفرد اور دلچسپ اعزازات کا حامل ملک ہے۔ مزید تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بلند ترین مقام پر اے ٹی ايم
دنيا بھر ميں سب سے زيادہ اونچائی پر اے ٹی ايم مشين پاکستان ميں ہے۔ گلگت بلتستان ميں خنجراب پاس پر سطح سمندر سے 15,300 فٹ يا 4,693 ميٹر کی بلندی پر واقع نيشنل بينک آف پاکستان کے اے ٹی ايم کو دنيا کا اونچا اے ٹی ايم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
سب سے کم عمر ميں نوبل انعام
سب سے کم عمر ميں نوبل امن انعام ملنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کو حاصل ہوا۔ ملالہ يوسف زئی کو جب نوبل انعام سے نوازا گيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ ملالہ سے پہلے ڈاکٹر عبداسلام کو سن 1979 ميں نوبل انعام کا حقدار قرار ديا گيا تھا۔
تصویر: Reuters/NTB Scanpix/C. Poppe
سب سے بلند شاہراہ
شاہراہ قراقرم دنيا کی بلند ترين شاہراہ ہے۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔
تصویر: imago
فٹ بالوں کا گڑھ - سیالکوٹ
سيالکوٹ اور اس کے گرد و نواح ميں سالانہ بنيادوں پر چاليس سے ساٹھ ملين فٹ باليں تيار کی جاتی ہيں۔ يہ فٹ بالوں کی عالمی پيداوار کا ساٹھ سے ستر فيصد ہے۔ خطے ميں تقريباً دو سو فيکٹرياں فٹ باليں تيار کرتی ہيں اور يہ دنيا بھر ميں سب سے زيادہ فٹ بال تيار کرنے والا شہر ہے۔
تصویر: Reuters
آب پاشی کا طويل ترين نظام
کنال سسٹم پر مبنی دنيا کا طويل ترين آب پاشی کا نظام پاکستان ميں ہے۔ يہ نظام مجموعی طور پر چودہ اعشاريہ چار ملين ہيکڑ زمين پر پھيلا ہوا ہے۔
تصویر: Imago/Zuma/PPI
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک پاکستان ميں ہے۔ يہ اعزاز غير سرکاری تنظيم ايدھی فاؤنڈيشن کو حاصل ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Hassan
سب سے کم عمر کرکٹر
سب سے کم عمر ميں انٹرنيشنل کرکٹ کھيلنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کرکٹر کو حاصل ہے۔ حسن رضا کی عمر صرف چودہ برس اور 227 دن تھی جب انہوں سن 1996 ميں فيصل آباد ميں زمبابوے کے خلاف پہلا بين الاقوامی ميچ کھيلا۔
تصویر: Getty Images
کرکٹ ميں سب سے تيز رفتار گيند
کرکٹ کی تاريخ ميں سب سے تيز رفتار گيند کرانے کا اعزاز شعيب اختر کو حاصل ہے۔ اختر نے سن 2003 ميں انگلينڈ کے خلاف ايک ميچ کے دوران 161.3 کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ايک گيند کرائی۔
تصویر: AP
سب سے کم عمر سول جج
محمد الياس نے سن 1952 ميں جب سول جج بننے کے ليے امتحان پاس کيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف بيس برس تھی۔ انہيں اس شرط پر امتحان دينے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ امتحان پاس کرنے کی صورت ميں بھی 23 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ملازمت نہيں کريں گے۔ تاہم بعد ميں نرمی کر کے انہيں آٹھ ماہ بعد بطور سول جج کام کی اجازت دے دی گئی۔ محمد الياس سب سے کم عمر سول جج تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
9 تصاویر1 | 9
ڈاکٹر اشفاق حسن کا مزید کہنا تھا کہ اب ایک بیرسٹر کو وزیر خزانہ لگا کر حکومت نے دوسری غلطی کی ہے۔ ان کے بقول، ''اگر ہم واقعی معیشت کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو معاشی امور کی ذمہ داری ماہرین کو سونپی جانا چاہیے۔ تمام غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگائی جانا چاہیے۔ اس طرح ہم چھ سے سات بلین ڈالر تک کی باآسانی بچت کر سکتے ہیں، جو ہماری معیشت کو سنبھالا دینے میں بہت اہم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں تمام اداروں میں اصلاحات بھی کرنا چاہییں۔‘‘
اشتہار
صرف قرض کی ادائیگی میں دلچسپی
کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہےکہ موجودہ حکومت کی عوام اور ملک کے حوالے سے کوئی ترجیحات نہیں ہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی ترجیح ہے کہ وہ قرضے واپس کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''میں نے اس حکومت کے 16 معاشی انڈیکیٹرز کا تجزیہ کیا اور ان میں سے صرف دو انڈیکیٹرز مثبت تھے۔ اس حکومت کا کام صرف قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہے۔ یہ عوامی فلاح، صنعتوں کی بہتری، زراعت کی پیداواری صلاحیت اور اہم معاشی امور کے حوالے سے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی اور نا ہی اپنے لیے کوئی ترجیحات متعین کرنا چاہتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا مزید کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کے واقعے میں حکومت نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سفارتی اکاؤنٹ سے کئی ملین ڈالر نکال کر کمرشل اکاؤنٹ میں ڈلوائے اور برطانیہ کو یہ موقع دیا کہ وہاں سے وہ پیسے نکلوا لیں۔ اسی طرح جب ایک عالمی ادارے کی طرف سے ہم پر چھ بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا، تو کہا جاتا ہے کہ جس کمپنی نے ہم پر کیس کیا تھا، اس کا ایک ملازم اس پینل میں بیٹھا تھا، جو ہمیں سزا سنا رہا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ ملک کے معاشی امور اور ملکی مفادات کو دیکھے۔ مجھے تو اس حکومت نے بہت مایوس کیا ہے۔‘‘
کرتارپور راہداری پاکستان کی امن کی خواہش کا ثبوت ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے گردوارہ دربار صاحب کا دورہ کیا اور کرتارپورراہداری کو پاکستان کی امن کی خواہش کا ثبوت ٹہرایا۔ انہوں نے پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان کے اقدامات کو بھی سراہا۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
گردوارہ دربار صاحب کا دورہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنے دورہ پاکستان کے دوران منگل کے روز کرتارپور میں پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب واقع سکھوں کے مقدس مقام گردوارہ دربار صاحب بھی گئے۔ گوٹیرش کا کہنا تھا،’’ کرتارپور راہ داری اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے۔‘‘ اس موقع پر انہیں کرتار پورراہداری کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
اقلیتوں کے بارے میں بریفنگ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنے دورہ پاکستان کے دوران منگل کے روز کرتارپور میں پاک بھارت سرحد کے قریب واقع سکھوں کی مقدس مقام گوردوارہ دربار صاحب پہنچے تو ان کا استقبال پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے رہنماوں نے کیا۔ انہیں پاکستان میں اقلیتوں کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
’پاکستان ماضی کے مقابلے میں اب بہت محفوظ ملک ہے‘
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری مہم سے اظہار یک جہتی کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش جب لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں واقع کنڈر گارٹن سکول پہنچے تو وہاں پر ان کو بچوں نے پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ وہ بچوں سے گھل مل گئے اور انہوں نے بچوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان آکر اچھا لگا۔ پاکستان ماضی کے مقابلے میں اب بہت محفوظ ملک ہے۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
پولیو ورکرز نے بہت قربانیاں دیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل
انٹونیو گوٹیریش نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے ۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا،’’ میں پولیو ورکرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں، جنہوں نے پولیو کو ختم کرنے کے لیے اپنی زندگیاں قربان کیں۔‘‘ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اس موقع پر کنڈر گارٹن سکول میں موجود تھیں۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
’پاکستان پولیو کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے‘
کنڈر گارٹن سکول کے دورہ پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیو گوٹیریش نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ ہم مل کر پولیو کا خاتمہ کریں گے۔ پولیو کے مرض کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو سکے۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان پولیو کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔‘‘ میں پوری دنیا کے لیڈر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مل کر پولیو کا خاتمہ کریں۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
لمز کا دورہ
اپنے دورہ لاہور کے دوران منگل کی صبح اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز بھی گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے لیے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں بہتری لائی جانی چاہیے اور نوجوانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے مزین کیا جانا چاہیے۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
لمز میں طلباء سے خطاب
انٹونیو گوٹیریش نے لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں اپنے خطاب میں دور حاضر میں اقوام عالم کو درپیش مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اور عالمی اداروں میں نوجوانوں کی شرکت بہتر بنانے پر زور دیا۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
7 تصاویر1 | 7
مسئلہ پالیسیوں کا ہے
جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے کچھ حلقے حفیظ شیخ کے فارغ کیے جانے پر خوش ہیں، وہیں کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کے جانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں نیو لبرل معیشت کی بہت بڑی نقاد ڈاکٹرعذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کو بدلنے کا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''حفیظ شیخ ہوں یا کوئی اور ان کی جگہ آئے، اس ملک میں سارے وزیروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں چلانے کا شوق ہے۔ انہوں نے ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے اور اب تمام تر پالیسیاں انہی کی ہیں۔ لہٰذا میرے خیال میں تو حفیظ شیخ کے جانے سے کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں ہو گا کہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف جائے۔‘‘
ڈاکٹرعذرا طلعت سعید کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی اقتصادی پالیسی کو درست کرنا ہے، تو عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف جانا پڑے گا، ''ہمیں اپنی صنعتوں کو بہتر بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ نج کاری اور نیو لبرل ایجنڈے کو مسترد کرنا ہو گا۔ ملک کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا پڑے گا تاکہ پھر ہمیں ان اداروں کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔‘‘
خواتین کا معیار زندگی: پاکستان بدترین ممالک میں شامل
خواتین، امن اور تحفظ سے متعلق شائع ہونے والے ایک انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس انڈیکس میں صرف شام، افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین لگایا جاتا ہے۔ ان تین زاویوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں۔ صرف سات فیصد خواتین کے پاس اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 34 ممالک میں انصاف سے متعلق مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کی نوکریاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی نوکری کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
تحفظ کا احساس
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کے لیے بدترین ممالک
اس اشارعیہ میں خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Zahir
جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں
اس رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
7 تصاویر1 | 7
قربانی کا بکرا
تحریک انصاف پنجاب کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حفیظ شیخ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''صرف دو ہفتے پہلے تک حفیظ شیخ اتنے اچھے تھے کہ ان کو سینیٹ کا الیکشن لڑایا جا رہا تھا۔ لیکن اب ان کو ان کے عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ شاید اس لیے کیا گیا ہے کہ جو بھی ناکامی حکومت کی ہے، اس کا الزام ان پر ڈال دیا جائے۔‘‘
اسد عمر لابی کی کامیابی
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کا ان کے عہدے سے ہٹایا جانا اسد عمر لابی کی کامیابی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اسد عمر ہمیشہ سے ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے خلاف تھے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بد حالی نے ان کی بات کو سچ ثابت کیا ہے۔
احسن رضا کے مطابق، ''حکومتی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی بھی حفیظ شیخ سے خوش نہیں تھے کیونکہ وہ ان کے ترقیاتی منصوبوں کو رد کرتے تھےجبکہ کچھ طاقت ور عناصر بھی اسٹیٹ بینک کے مسئلے پر حفیظ شیخ سے خوش نہیں تھے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی بھی حفیظ شیخ کے خلاف گئی جس کو اسد عمر اور ان کے ہم خیال حلقوں نے سابق مشیر خزانہ کے خلاف استعمال کیا۔‘‘
پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟