1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان پر مزید دباؤ

17 اپریل 2012

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پیر کو پاکستان پر ایک مرتبہ پھر مطالبی کیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ یہ مطالبہ کابل میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں اس تنظیم کے ممکنہ کردار کے بعد کیا جا رہا ہے۔

تصویر: dapd

برازیل کے دورے پر گئیں ہلیری کلنٹن نے دارالحکومت برازیلا میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ انہوں نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ انہوں نے بتایا کہ اکتوبر میں دورہ اسلام آباد میں بھی انہوں نے پاکستانی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا رہے گا۔

کلنٹن نے یہ بیان برازیل کے دورے کے دوران دیاتصویر: Reuters

انہوں نے بتایا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں گزشتہ ویک اینڈ پر ہونے والے حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیٹ ورک ایک مضبوط دشمن ہے۔

کلنٹن نے بتایا کہ انہوں نے پیر ہی کے روز پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی ہے۔ ’’میں نے ان سے بھرپور انداز میں کہا ہے کہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘

دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی نے کابل اور افغانستان کے متعدد علاقوں میں ویک اینڈ پر ہونے والے بڑے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری انٹیلی جنس کی ناکامی کو قرار دیتے ہوئے اس کا زیادہ تر الزام نیٹو فورسز پر عائد کیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ویک اینڈ پر افغانستان میں گزشتہ دس برس کے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے، جو مسلسل اٹھارہ گھنٹوں تک جاری رہے۔ ان حملوں میں بیک وقت حکومتی دفاتر، سفارتخانوں اور غیر ملکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں 51 افراد ہلاک ہوئے جن میں چار شہری، سکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار اور 36 عسکریت پسند شامل تھے۔

کرزئی کے مطابق، ’کابل اور دیگر صوبوں میں مربوط دہشت گردانہ حملے ہمارے لیے انٹیلی جنس کی ناکامی ہے تاہم خصوصی طور پر اس کی زیادہ تر ذمہ داری نیٹو پر عائد ہوتی ہے۔ اس معاملے کی سنجیدہ تفتیش انتہائی ضروری ہے۔‘‘

at/hk (AFP, Reuters)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں