حقانی کا استعفیٰ میمو گیٹ سکینڈل کا ڈراپ سین !
23 نومبر 2011اس سے قبل منگل کی شب وزیراعظم ہاؤس کے ایک ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس معاملے کی مناسب سطح پر جامع تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے حسین حقانی کا استعفیٰ منطور کر لیا۔ ترجمان کے مطابق حسین حقانی سے اس لیے استعفیٰ لیا گیا تا کہ اس سارے معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کی جا سکیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے جڑے ہوئے تمام افراد کو شفاف ، بامقصد اور غیر متعصبانہ تحقیقات کے لیے اپنا اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کے لیے مناسب موقع دیا جائے گا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ مبینہ میمو کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد قومی مفاد میں یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اصل حقائق تک پہنچا جائے۔
حسین حقانی نے سب سے پہلے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیوٹر پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ حسین حقانی کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کا استعفیٰ قبول کر لیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
اس سے قبل میمو گیٹ سکینڈل کی وجہ سے تنازعات میں گِھرے ہوئے حسین حقانی نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اسلام آباد میں ملک کی سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ پہلے ایوان صدر اور پھر ایوان وزیراعظم میں کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا شریک ہوئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق حسین حقانی نے اس ملاقات میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس خفیہ مراسلے سے کوئی تعلق نہیں جو پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز نے امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔ حسین حقانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ ان کے اوپر لگائے گئے الزامات کی جامع تحقیقات نہیں کی گئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حسین حقانی کو اس معاملے پر ملاقات کے دیگر شرکاء کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا نے اس خفیہ مراسلے کے حوالے سے کچھ اہم ثبوت بھی پیش کیے تھے۔
ادھر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے بھی میمو کے معاملے کی ٹھوس تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ ملکی وقار کا ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی وسیم احمد نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک نے کہا کہ میمو کے حوالے سے پہلے ہی دال میں کچہ کالا نظر آرہا تھا لیکن اب حسین حقانی کے استعفے نے ثابت کر دیا ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے حسین حقانی سے استعفی لیکر ایک اچھی روایت قائم کی ہے لیکن اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جانا چاہیے کہ حسین حقانی اس معاملے میں قصور وار ہیں ۔پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات قمر زمان قائرہ کا کہنا ہے حسین حقانی سے استعفی اس لیے طلب کیا گیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے دوران یہ تاثر نہ قائم ہو کہ انہوں نے سفیر کے عہدے پر قائم رہتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ اور حال ہی میں پیپلز پارٹی سے الگ ہونے والے شاہ محمود قریشی نے حقانی کے استعفے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچنا چاہیے اور اس کے لئے غیر جانبدارانہ تحقیقات ناگزیر ہیں۔ حسین حقانی کے استعفی کے بعد واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی نائب ناظم الامور عفت گردیزی ناظم الامور کی خدمات سر انجام دیں گی۔
رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: شادی خان سیف