1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حقانی گروپ کے مبینہ 60 عسکریت پسند ہلاک: افغان حکام

عابد حسین30 اپریل 2014

افغان سکیورٹی ذرائع نے پاکستانی سرحد کے قریب صوبہ پکتیکا میں طالبان کے حمایتی سمجھے جانے والے حقانی گروپ کے درجنوں جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں مبینہ طور پر غیرملکی عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

تصویر: DW/H. Hashami

افغانستان میں متعین نیٹو کے آئی سیف دستوں کے عملی تعاون کے ساتھ افغان فوج نے پاکستانی سرحد کے قریب عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی کی ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم 60 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ہلاک شدگان میں کئی غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔ اِس کارروائی سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حقانی گروپ کے خلاف امریکا نے اپنی مہم کو تقویت دے دی ہے۔ مبصرین کے مطابق رواں برس کے اختتام پر فوجی انخلا سے قبل امریکا حقانی گروپ پر کاری ضرب لگانے کی کوششوں میں ہے۔

یہ فوجی کارروائی طالبان سے قریبی تعلق رکھنے والے حقانی گروپ کے عسکریت پسندوں کے خلاف کی گئی ۔ پاکستانی سرحد سے جڑے افغان صوبے پکتیکا کے مقام زیرُوک پر حقانی گروپ کے تین سو عسکریت پسندوں کو افغان فوج کی جانب سے بھاری فائرنگ اور گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ عسکریت پسند زیرُوک میں واقع افغان فوجی اڈے پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں تھے۔ اِس کارروائی کی تصدیق افغان حکومت کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ برائے سکیورٹی نے کی ہے۔ پکتیکا صوبے کی سرحد کی نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے اور دونوں جانب سے مسلح گروپ کے اراکین بڑے آرام سے سرحدی مقامات عبور کر سکتے ہیں۔

افغان فوج کو غیر ملکی فوجیوں کی عملی معاونت بھی حاصل تھیتصویر: DW/H. Hashami

حقانی نیٹ ورک کھلے عام افغان طالبان کے لیڈر ملا عمر کی حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ میں کئی خوفناک حملوں میں اسی نیٹ ورک کا نام لیا جاتا ہے۔ اسی گروپ نے کابل کے کئی مقبول ہوٹلوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ افغان دارالحکومت کابل میں بھارتی سفارتخانے کی عمارت پر سن 2011 میں کیے جانے والے حملے میں بھی اسی گروپ کو ملوث خیال کیا جاتا ہے۔

امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروپ خیال کرتے ہوئے سن 2012 میں اِس کو بلیک لسٹ قرار دے دیا تھا۔ کابل اور واشنگٹن میں ایسا تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں