حق مہر پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم
10 دسمبر 2023خوشگوار ازدواجی زندگی کے خواب لے کر 30 سالہ ثمینہ (نام بدل دیا گیا) نے گزشتہ برس عمر (نام بدل دیا گیا) سے اسلام آباد میں شادی کی۔ ثمینہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمر ان کی ذات سے نہیں تھا، اس لیے گھر والوں کا اصرار تھا کہ حق مہر کم از کم 10 لاکھ روپے ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا، ''گھر والے زیادہ حق مہر اس لیے رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے گرد بہت سارے ایسے واقعات ہوئے تھے، جس میں والدین نے اپنی بیٹیوں کی شادی پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا اور بعد میں ان خواتین سے یا تو حق مہر معاف کرا کے طلاق دے دی گئی یا انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ خلع لیں جس میں مرد کو عموما حق مہر نہیں دینا پڑتا۔‘‘
ثمینہ کا کہنا ہے کہ باہمی گفت و شنید کے بعد حق مہر پانچ لاکھ طے ہوا۔ '' لیکن کچھ عرصے بعد ہی اس نے اس حق مہر پر اعتراضات کرنے شروع کر دیے اور گزشتہ برس مئی وہ آسٹریلیا چلا گیا جہاں وہ شادی سے پہلے اسٹوڈنٹ ویزے پر گیا تھا۔‘‘
ثمینہ کے مطابق اب ان کا شوہر کہتا ہے کہ اس کو کسی اور عورت سے شادی کرنی ہے۔ ''اور یہ کہ میں خلع لے لوں۔ میرے سسرالی بھی عمر کو کہتے ہیں کہ وہ میرا حق مہر ادا کرے لیکن وہ حق مہر دینا نہیں چاہتا۔‘‘
ثمینہ کا شکوہ ہے کہ عمر اسے خرچہ بھی برابر نہیں دے رہا، ''گزشتہ برس مئی سے اس نے کبھی چھ ہزار، کبھی آٹھ ہزار، کبھی 10 ہزار اور کچھ مہینے 30 ہزار دیے۔ لیکن اس سال جون سے لے کر اب تک اس نے مجھے کوئی خرچہ بھی نہیں دیا ہے۔‘‘
پاکستان میں خواتین کو درپیش ایسی ہی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حال ہی میں فیصلہ دیا ہے کہ خواتین کو حق مہر طلب کرنے پر دیا جائے۔
ثمینہ کا کہنا ہے کہ جن خواتین کو طلاق دی جاتی ہے، انہیں حق مہر وصول کرنے میں بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ ''اس حوالے سے جو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے یہ نہایت مثبت ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر سختی سے عمل کرایا جائے اور خواتین کو بار بار عدالتوں کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔‘‘
ثمینہ کا مزید کہنا تھا، ''خواتین کو کبھی بھی حق مہر معاف نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی حق مہر کی رقم کم رکھنی چاہیے۔ اگر حق مہر کی رقم بہت زیادہ ہو تو کسی حد تک مالی تلافی ہو سکتی ہے۔‘‘
ثمینہ کے مطابق ان کے والدین نے ان کی شادی پر 50 سے 60 لاکھ روپے خرچ کئے۔ ''اور صورتحال یہ ہے کہ میرا خاوند مجھے میرا دس لاکھ کا حق مہر بھی نہیں دے رہا۔‘‘
خلع لینے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے؟
یہ صرف ثمینہ کی کہانی نہیں بلکہ پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین ہیں جن کو یا تو حق مہر کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے یا وہ اسے معاف کر دیتی ہیں۔
اسلام آباد میں فیملی کورٹس کے مقدمات لڑنے والی وکیل راحیلہ نذیر کا کہنا ہے کہ ساری خواتین کو ان کے خاوند اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ مجبور ہو کر خلع لے لیتی ہیں۔ ''اس صورت میں انہیں کسی طرح کا مالی معاوضہ نہیں ملتا۔ جس سے ان کی مالی مشکلات بہت بڑھ جاتی ہیں اور بچوں کا ساتھ ہو تو ایسی مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے معاشرے میں مرد کروڑوں روپیہ شادی پر خرچ کرتے ہیں لیکن جب حق مہر کی بات آتی ہے تو وہ 32 روپے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا قانون ہونا چاہیے کہ جو شخص جتنا زیادہ پیسہ اپنی شادی پہ خرچ کرے، حق مہر بھی اسی کے حساب سے ہو۔‘‘
سمیعہ راحیل قاضی کے مطابق بجائے اس کے کہ مرد کروڑوں روپیہ حق مہر پہ خرچ کریں انہیں چاہیے کہ اس پیسے کا ایک بڑا حصہ اپنی بیوی کو زیورات کی شکل میں حق مہر کے طور پر دے دیں۔
تاہم کچھ خواتین اس فیصلے کو ہدف تنقید بھی بنا رہی ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر شازیہ ناز عروج کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' جب خواتین کو پتہ چلے گا کہ انہیں طلاق کی صورت میں اتنی بھاری رقم ملے گی تو وہ چھوٹے موٹے جھگڑوں پر گھر بسانے کے بجائے، گھر توڑنے کو ترجیح دیں گی۔‘‘
شازیہ ناز عروج کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ''بہت سارے مردوں کے لیے یہ ممکن نہیں فوری طور پر وہ حق مہر کی رقم کا بندوبست کر سکیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے خاندانی رشتوں میں مزید تلخی پیدا ہوگی۔‘‘
طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ مرکزی سطح پر اس طرح کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کیونکہ زیادہ تر طلاقیں یونین کونسل کی سطح پر ہوتی ہیں خلع کے لیے عموما خواتین عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں لیکن اس کے اعداد و شمار بھی صوبائی سطح پر جمع کیے جاتے ہیں۔
گلیپ اینڈ گیلانی پاکستان کے ایک سروے کے مطابق اٹھاون فیصد پاکستانیوں کا خیال تھا کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شہروں میں طلاق کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے۔
انگریزی روزنامہ دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں 2020 کی پہلی سہ ماہی کے دوران تین ہزار آٹھ سو طلاق کے واقعات پورٹ ہوئے۔ جنوری دوہزار اکیس سے نومبر 2021 تک راولپنڈی کی عدالتوں میں دس ہزار تین سو بارہ کیسز طلاق، خلع، گارڈین شپ اور اخراجات سے متعلق تھے۔ 13 ہزار کے قریب ایسے مقدمات دوہزار اکیس میں فیملی کورٹس میں چل رہے تھے۔
لاہور میں بھی یہ شرح بلند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی 31 اگست 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق یکم جنوری 2019 سے لے کر 28 فروری 2022 طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس دوران شہر میں چوبیس ہزار ایک سو ستاون کیسز رپورٹ ہوئے، جس میں 13540 مقدمات میں مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دی اور 9827 خواتین نے خلع کے لیے رجوع کیا۔