حلب کی جنگ، سلامتی کونسل میں مشرق اور مغرب کے درمیان کشیدگی
8 اکتوبر 2016جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان شامی تنازعے پر اختلافات نے سرد جنگ سے زیادہ ’خطرناک‘ صورت حال اختیار کر لی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ روس کی حمایت یافتہ شامی فورسز حلب شہر میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، جو جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس موضوع پر دو متضاد قراردادوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ ان میں سے ایک قرارداد کا مسودہ فرانس کی جانب سے مرتب کیا گیا ہے، جب کہ دوسری جانب روس نے بھی شام میں فائربندی کے مطالبے کی حامل ایک قرارداد کا مسودہ ووٹنگ کے لیے جمع کرایا ہے، تاہم اس میں حلب میں بمباری روکنے کاکوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ روس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ فرانسیسی قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔ فرانسیسی قرارداد کے مسودے میں، جسے امریکی اور برطانوی حمایت بھی حاصل ہے، حلب پر جنگی طیاروں کی پروازوں پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب روس کی حمایت یافہ شامی فورسز نے حلب شہر میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری شدید ترین لڑائی میں متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور اب وہ شمال کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں جب کہ شہر کا مرکزی حصہ بھی، جس پر سن 2012ء میں باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا، اب شامی فورسز کے حملوں کی زد میں ہے۔ ستمبر کی 19 تاریخ کو حلب میں امریکا اور روس کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے خاتمے کے بعد سے اب تک باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں کم ازکم 305 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 57 بچے بھی شامل ہیں۔
شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہفتے کے روز بھی جب ایک طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، شامی فورسز مسلسل پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔