1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حماس اسرائیل تنازعے پر متضاد موقف، ایردوان کا دورہ جرمنی

17 نومبر 2023

حماس اور اسرائیل کے مابین تنازعے پر اختلافی موقف کے سبب برلن اور انقرہ کے مابین تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ ترکی حماس کو حریت پسند جبکہ جرمنی ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔

Türkei | Olaf Scholz trifft Recep Tayyip Erdogan
تصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

ترک صدر رجب طیب ایردوآن جمعے کے روز ایک مختصر دورے پر جرمن دارالحکومت برلن پہنچے۔ وہ جرمن چانسلر اولاف شولس اور صدر فرانک والٹر اشٹائن مار سے ملاقاتیں کریں گے۔ ترک رہنما یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں، جب ترکی اور جرمنیکے مابین تعلقات اپنی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے پر دونوں ممالک کے نقطہ نظر میں اختلاف ہے۔ایردوآن نے اسرائیل پر تنقید اور حماس کا دفاع کرتے ہوئے سخت بیان بازی کا سہارا لیا ہے، جبکہ جرمنی جیسے ترکی کے مغربی اتحادی حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔

ترک صدر نے مشرق وسطی کے حالیہ تنازعے میں اسرائیل کے خلاف کھل کر بیانات دیے ہیں، جس پر برلن حکومت ناخوش ہےتصویر: Kayhan Ozer/AA/picture alliance

ایردوآن نے حال ہی میں انقرہ میں کہا کہ  اسرائیل 75 سالوں سے "اس زمین پر ایک ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو فلسطینی عوام سے چھین لی گئی تھی۔" انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی قانونی حیثیت کو اس کے "اپنے فاشزم" کے ذریعے سوالیہ نشان بنایا جا رہا ہے۔

ا س کے بعد منگل کو برلن میں ایک نیوز کانفرنس  سے خطاب کے دوران  جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایردوآن کے تبصروں کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل ایک جمہوریت ہے۔

جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ جوزف شسٹر نے بھی ایردوآن پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ "جرمنی کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں اور جرمنی میں یہودیوں کے خلاف اپنے پروپیگنڈے سے نفسیاتی دہشت گردی کو ہوا دی گئی ہے۔"

جرمنی اور ترکی: ایک دوسرے پر انحصار

اگرچہ کچھ عہدیداروں نے موجودہ تنازعے کی وجہ سے ترک رہنما کا دورہ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا تھا تاہم جرمن حکومت اس دورے کو آگے بڑھانا چاہتی تھی۔ اپوزیشن کی جماعت سینٹر رائٹ کرسچن ڈیموکریٹس (سی ڈی یو) نے بھی اسی حکومتی موقف سے اتفاق کیا۔ سی ڈی یو کے رہنما فریڈرک مرز نے کہا کہ ترکی جرمنی کے لیے بہت اہم ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بند کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

جرمنی میں ترک شہریت رکھنے والے تقریباً 15 لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے دو تہائی نے اس سال کے اوائل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایردوآن کو ووٹ دیا تھا، اب انتخابات کو بین الاقوامی مبصرین نے آزاد لیکن غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔

ترک نژاد جرمنوں کی ایک بڑی تعداد صدر ایردوان کی حامی ہےتصویر: Erbil Basay/AA/picture alliance

  اقتصادی لحاظ سے جدوجہد کرنے والا ترکی جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ اچھے کاروباری تعلقات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی یورپی یونین کی طرف بڑھنے والے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کی کوششوں میں ایک اہم شراکت دار ہے۔

سات سال قبل ایردوآن نے یورپی یونین کے ساتھ انسانی اسمگلروں کو روکنے اور ان تارکین وطن کو واپس لینے کا معاہدہ کیا تھا، جن کی پناہ کی درخواستیں پڑوسی ملک یونان میں مسترد کر دی گئی تھیں۔ اس کے بدلے میں انقرہ کو ملک میں لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اربوں یورو ملے۔ یورپی یونین اس پناہ گزین معاہدے کی بحالی کی امید کر رہی ہے۔

ترکی مشرق وسطیٰ میں جاری بحران میں ثالث کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے، جیسا کہ وہ یوکرین اور روس کے مابین کرتا رہا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازعے نے اس حوالے سے ترکی کی حثیت کو مزید بلند کر دیا ہے۔

جرمنی کی پارلیمانی دفاعی کمیٹی کی سربراہ میری ایگنیس اسٹریک زیمرمین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ ضروری ہے کہ وہاں جنگ نہ پھیلے اور یقیناً ترکی بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے۔اس سلسلے میں ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس حد تک براہ راست ایک کردار سکتے ہیں۔"

جینز تھراؤ ( ش ر/ ر ب، ع ا)

ترک تارکین وطن ایردوآن کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

03:04

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں