1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہاسرائیل

حماس اور اسرائیل میں شدید ترین جھڑپیں

21 اپریل 2022

فلسطینی جنگجووں نے غزہ سے اسرائیل پر متعدد راکٹ داغے، جواب میں اسرائیل نے جمعرات کو علی الصبح فضائی حملے کیے۔ یہ حملے گزشتہ برس گیارہ روز تک چلنے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے شدید جھڑپیں ہیں۔

Israelische Angriffe im Gazastreifen
تصویر: Yousef Masoud/AP Photo/picture alliance

اسرائیلی سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کی شام کو غزہ سے ایک راکٹ جنوبی اسرائیلی شہر سدیروت کے ایک باغ میں گرا، لیکن اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے جمعرات کو علی الصبح وسطی غزہ پرجوابی حملہ کیا اور تقریباً ایک درجن راکٹ داغے۔ جس کے بعد فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل کی جانب چار راکٹ داغے گئے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے غزہ میں ایک عسکری چوکی اور ایک سرنگ میں قائم کمپلکس کو نشانہ بنایا، جہاں راکٹ انجنوں کی تیاری کے لیے خام کیمیائی مواد موجود تھا۔

غزہ پر حکمرانی کرنے والے حماس نے کہا کہ اس نے اسرائیلی طیاروں پر زمین سے فضا میں مار کرنے والے راکٹوں سے فائر کیا۔

یہ تازہ ترین جھڑپ ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب مسجد اقصیٰ کا احاطہ فلسطینیو ں اور اسرائیل کے درمیان تقریباً ایک ماہ سے تنازع کا مرکز بنا ہوا ہے۔

شدت پسند یہودی مظاہرین اسرائیلی پرچم لہراتے ہوئے 'عرب مردہ باد' کے نعرے لگارہے تھےتصویر: Ariel Schalit/AP/picture alliance

جھڑپوں کا سلسلہ جاری

حماس اور اسرائیلی فورسز کے درمیان ہونے والی اس تازہ ترین جھڑپ سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی پولیس نے انتہائی شدت پسند یہودیوں کے ایک ہجوم کو مشرقی یروشلم  کے پرانے شہر میں مسلم اکثریتی علاقوں تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ پولیس نے یہ قدم چار ہفتوں سے جاری جھڑپوں کے بعد بڑھتے ہوئے تشدد کو ختم کرنے کے مقصد سے اٹھایا تھا۔ ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 36 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس میں انتہائی کٹرمذہبی یہودیوں کی جانب سے پرانے شہر میں مظاہرے کے لیے اسی طرح کی اپیل کی گئی تھی جس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا جو گیارہ روزہ جنگ میں تبدیلی ہوگئی تھی۔

بدھ کی شام کو ایک ہزار سے زائد شدت پسند یہودی مظاہرین اسرائیلی پرچم لہراتے ہوئے جمع ہوئے۔ ان میں کچھ 'عرب مردہ باد' کے نعرے لگارہے تھے۔ لیکن پولیس نے انہیں دمشق گیٹ اور پرانے شہر کے مسلم علاقوں تک پہنچنے سے روک دیا۔

انتہائی دائیں بازو سے وابستہ متناز ع قانون ساز اتمار بین گویر نے مظاہرین کی قیادت کی۔انہوں نے بدھ کے روز وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کی جانب سے دمشق گیٹ علاقے میں مظاہروں پر روک لگانے کے اعلان کی نکتہ چینی بھی کی۔

بین گویر نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں یہ واضح طورپر کہنا چاہتا ہوں کہ میں آرام سے بیٹھنے والا نہیں ہوں۔" اس کے جواب میں ان کے حامیوں نے 'بینیٹ گھر جاو' کے نعرے بلند کیے۔ گویر کا کہنا تھا،" آخر مجھے کس قانون کے تحت دمشق گیٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے؟ 

بینیٹ نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مارچ کو روک دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، "میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ چھوٹی چھوٹی سیاست کے لیے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت دی جائے۔"

بین گویر نے جمعرات کو اس کا جواب دیتے ہوئے کہا،"کچھ یہودی حماس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے۔"

مسجد اقصیٰ کا احاطہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تقریباً ایک ماہ سے تنازع کا مرکز بنا ہوا ہےتصویر: Mahmoud Illean/AP Photo/picture alliance

کشیدگی میں اضافہ

حماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورت حال ایسے وقت ہے جب یہودی 'پاس اوور'کا تہوار منارہے ہیں اور مسلمان مقدس ماہ رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں۔

فلسطینیوں اور اسرائیلی عربوں نے مارچ کے اواخر اور اپریل کے اوائل میں اسرائیل میں چار حملے کیے جن میں 14افراد ہلاک ہوگئے۔

 دوسری طرف 22مارچ کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک 23فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ منگل کے روز اسرائیل نے کئی مہینوں بعد غزہ پر اپنا پہلا فضائی حملہ کیا تھا۔

اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یروشلم میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر انہیں شدید تشویش ہے۔" انہوں نے بتایا کہ وہ فریقین کے رابطے میں ہیں اور"انہیں کشیدگی کو کم کرنے اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے اجتناب کرنے کے لیے آمادہ کرنے" کی کوشش کررہے ہیں۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان یروشلم میں جھڑپیں

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں