حماس اور اسلامی جہاد کا اسرائیل کے ساتھ فائر بندی کا اعلان
15 جولائی 2018
غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے پر حکمران حماس اور ایک دوسری شدت پسند تنظیم اسلامی جہاد نے اسرائیل کے ساتھ فائر بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج نے گزشتہ چار سال کے دوران غزہ پر دن کے وقت سب سے بڑے حملے کیے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی اتوار پندرہ جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے بتایا کہ یہ فائر بندی مصر کی طرف سے کی جانے والی ثالثی کے نتیجے میں عمل میں آئی۔
فوزی برہوم نے کہا، ’’غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز اور حالیہ ہفتوں میں دوطرفہ کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ہی کئی فریق اپنے اپنے طور پر ثالثی کی کوششیں کر رہے تھے۔ اب مصر کی طرف سے کی جانے والی کوششیں ثمر آور ثابت ہوئی ہیں اور کشیدگی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے ایک فائر بندی طے پا گئی ہے۔‘‘
اسی طرح ایک علیحدہ بیان میں ایک اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم اسلامی جہاد نے بھی اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک سیز فائر ڈیل طے پا گئی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی طرف سے صرف یہ کہا گہا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے مستقبل کے اقدامات کا تعین محض ’آئندہ زمینی حالات‘ کریں گے۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس فائر بندی اعلان سے قبل ہفتہ چودہ جولائی کو اسرائیل نے غزہ میں حماس کے قریب 40 عسکری اہداف پر فضائی حملے کیے۔ یہ حملے گزشتہ چار برسوں کے دوران دن کے وقت غزہ پر کیے گئے سب سے بڑے اسرائیلی حملے تھے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان حملوں کے دوران صرف حماس کے عسکری اہداف کا نشانہ بنایا گیا اور ان فضائی حملوں سے قبل مقامی سول آبادی کو عربی زبان میں اعلانات کرتے ہوئے خبردار بھی کر دیا گیا تھا۔ فوجی ترجمان نے بتایا، ’’یہ فضائی حملے اسرائیل کی حماس کے خلاف جوابی کارروائی تھی، جس دوران 2014ء کے موسم گرما سے لے کر اب تک دن کی روشنی میں سب سے بڑے حملے کیے گئے۔‘‘
اسرائیلی فوجی ترجمان نے مزید کہا، ’’حماس کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے ان حملوں کو شدید تر بھی بنا سکتے ہیں اور ایسا کریں گے بھی۔ اس لیے کہ حماس غزہ پٹی کی آبادی کو مسلسل تباہی کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے۔‘‘
مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غزہ میں حماس کے عسکری اہداف پر ان فضائی حملوں کے بعد شدت پسند فلسطینیوں کی طرف سے جواباﹰ اسرائیل پر قریب 100 راکٹ اور گرینیڈ فائر کیے گئے، جن کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے ان فضائی حملوں کے نتیجے میں دو فلسطینی نوجوان ہلاک اور 14 دیگر افراد زخمی بھی ہو گئے۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق زخمیوں کی اکثریت اس فضائی حملے میں زخمی ہوئی، جو حماس کی ایک عمارت پر کیا گیا تھا۔
م م / ع ا / روئٹرز، ڈی پی اے
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔