حماس کا عسکری ونگ القسام بریگیڈز کیا ہے؟
5 نومبر 2023عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی ونگ کے نائب رہنما صالح العروری نے حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے حملے کو عینی شاہدین کے بیان کے برعکس بیان کیا۔ العروری نے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''القسام بریگیڈز کا فوجی منصوبہ غزہ ڈویژن میں قابض اسرائیلی فوج کو نشانہ بنانا اور اس کے قابض فوجیوں سے لڑنے کا تھا اور ہمارے پاس اطلاع تھی کہ قابض فوج عبرانی تعطیلات کے بعد ہم پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔‘‘
حماس کو امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ممالک نے بھی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ القسام بریگیڈز حماس کا عسکری بازو ہے۔ العروری نے کہا کہ سات اکتوبر کوالقسام بریگیڈز کے تقریباً 1200 ارکان غزہ سے نکل کر اسرائیل میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے حملے میں حصہ لیا۔
العروری نے اس بات کی تردید کی کہ حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے اندر سے دوسرے ''شہریوں‘‘ نے بعد میں اسرائیلی سویلین باشندوں کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب کیا۔ تاہم العروری نے یہ نہیں بتایا کہ اگر حماس کے خلاف اس طرح کے حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، تو پھر غزہ کے قریب اتنے کم اسرائیلی فوجی کیوں تعینات کیے گئے تھے؟
القسام بریگیڈز کا 'چھلاوا‘ لیڈر
العروری کا شمار القسام بریگیڈز کے بانیوں میں ہوتا ہے لیکن وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل رہنما محمد ضیف ہیں، جنہیں اکثر ایک ''چھلاوا‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے روپوش ہیں۔ ان کا نام اسرائیل کو ''انتہائی مطلوب‘‘ ملزمان کی فہرست میں درج ہے۔
محمد ضیف 2002 ء سے القسام بریگیڈز کے سربراہ ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل پر کئی ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے انہی کا ہاتھ تھا۔ اسرائیلی فوج کے کئی ناکام قاتلانہ حملوں کے بعد انہیں جسمانی طور پر شدید معذور بھی سمجھا جاتا ہے۔
القسام بریگیڈز کی بنیاد 1992ء میں رکھی گئی تھی۔ سی آئی اے کی فیکٹ بُک کے مطابق القسام بریگیڈز کے پاس 20 ہزار سے 25 ہزار تک کے درمیان جنگجو ہیں حالانکہ اس تعداد کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ناممکن ہے۔ اسی عسکری گروپ نے اس وقت غزہ پٹی کے علاقے میں 240 کے قریب اسرئیلی باشندوں اور دیگر ممالک کی شہریتوں کے حامل افراد کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
اس مسلح ونگ کا نام ایک شامی عالم عزالدین القسام کے نام پر رکھا گیا ہے، جو 1882ء میں شام میں پیدا ہوئے تھے۔ القسام ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی مصلح بھی تھے، جو اس بات کے قائل تھےکہ یورپی استعماری طاقتوں کو مشرق وسطیٰ سے نکالنے کا واحد راستہ تشدد ہے۔ وہ 1935ء میں برطانوی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
القسام بریگیڈز غزہ پٹی کی زمین کے نیچے حماس کی سرنگوں کے وسیع تر نیٹ ورک کی تعمیر میں بھی ملوث رہی ہے، جو ماضی میں اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔
2006ء میں حماس کے جنگجوؤں نے غزہ کی سرحد کے قریب اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو اغوا کرنے کے لیے سرنگوں کا استعمال کیا تھا۔ سن 2014 میں اسرائیلی فوج کے سات ہفتے طویل آپریشن کے دوران اس گروپ کے چار جنگجو تیرتے ہوئے ساحل پر پہنچےاور ایک اسرائیلی ٹینک پر حملہ کیا۔ یہ جنگجو اس کے بعد ہونے والی لڑائی میں مارے گئے تھے۔
ایران سے تعلقات
حماس کے ایک بازو کے طور پر القسام بریگیڈز کو ایران مالی کے ساتھ ساتھ حکمت عملی ترتیب دینے کے معاملے میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ حماس اور ایرانی حکومت کے مابین رابطہ کار خالد قدومی نے 2021 ء میں المانیٹر میگزین کو بتایا تھا، ''اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک طرف علم اور مہارت کی منتقلی اور دوسری طرف راکٹوں کی نقل و حمل میں بہت مدد کی ہے اور حماس کو اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے اپنی مقامی صلاحیتوں پر انحصار کرنے میں بھی مدد دی ہے۔‘‘
اسرائیل کی ملٹری انٹیلیجنس کے ایک سابق رکن اور اب موشے دایان سینٹر برائے مشرق وسطیٰ کے محقق مائیکل ملشٹین نے کہا کہ ایران کی جانب سے اس حمایت میں گزشتہ دہائی کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ ایران القسام بریگیڈز کے ارکان کی تربیت میں مدد کر رہا ہے۔ ملشٹین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سنائپرز، بوبی ٹریپس اور پیرا شوٹر اور وہ تمام چیزیںم جن کا ہم نے سات اکتوبر کو سامنا کیا۔‘‘
القسام بریگیڈز کے پاس گولہ بارود کتنا ہے؟
سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی مقدار اور اقسام یعنی راکٹ، ڈرونز، چھوٹے ہتھیاروں اور بعد میں اسرائیل کی جانب سے حملہ آوروں سے ملنے والے اسلحے کی نمائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ القسام بریگیڈز کے پاس اب بھی گولہ بارود موجود ہے۔
راکٹوں کی صحیح تعداد نامعلوم ہے۔ ملشٹین نے کہا کہ غزہ پٹی کے علاقے میں اکثر حزب اللہ کی مدد سے پڑوسی ملک لبنان یا شام کے راستے بہت سے ہتھیار اسمگل کر کے لائے جاتے ہیں۔ اس پر یروشلم انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سکیورٹی یا جے آئی ایس ایس نے فلسطینی عسکریت پسند گروہ جہاد اسلامی، جو کہ غزہ میں اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے، کے سیکرٹری جنرل زیاد النخلہ کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا ہے۔ اس گروپ کو بھی امریکہ، اسرائیل اور بعض یورپی ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
لبنان میں قائم ایک ایران نواز میڈیا آؤٹ لیٹ المیادین سے بات کرتے ہوئے النخلہ نے تصدیق کی کہ ان کے گروپ کے لیے روایتی ہتھیار بنیادی طور پر حزب اللہ اور شام کے راستے آتے ہیں اور یہ کہ نام نہاد ''محور مزاحمت‘‘ کے تمام ارکان اس میں شامل ہیں۔ یہ اسمگلنگ زمینی اور زیر زمین راستوں کے علاوہ سمندر کے راستے بھی ہو سکتی ہے۔
''محورِ مزاحمت‘‘سے مراد ان پراکسی گروہوں کے نیٹ ورک ہیں، جن کی حمایت ایران مشرق وسطیٰ میں اپنے علاقائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کرتا ہے۔ جے آئی ایس ایس کے محققین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ النخلہ نے شام میں خصوصی تربیتی کیمپوں کا ذکر بھی کیا، جہاں حماس کے جنگجو راکٹ بنانے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔
یہ آرٹیکل ابتدائی طور پر جرمن زبان میں لکھا اور شائع کیا گیا۔
ش ر/ا ا، م م (کَیرسٹن کنِپ)