1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

حماس کی جنگ بندی کی تجویز ’غیر حقیقی‘ ہے، اسرائیل

15 مارچ 2024

حماس کی طرف سے تجویز کیے گئے جنگ بندی کے منصوبے میں اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرط شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ یہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔

Nahostkonflikt | Chan Yunis
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے جمعے کے روز کہا ہے کہ سات اکتوبر سے لے کر اب تک غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 31490 ہو چکی ہےتصویر: Yasser Qudih/Xinhua/IMAGO

اسرائیل نے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے پیش کی گئی غزہ میں جنگ بندی کی تجویز کو "غیر حقیقت پسندانہ" قرار دیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کی جنگ بندی کے لیے تجاویز میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور بیمار اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید سات سو سے ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے، جن میں سے تقریباً 100 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کی طرف جنگ بندی  کے لیے ثالثوں قطر، مصر  اور امریکہ کو پیش  کیے گئے مجوزہ معاہدے کا مسودہ دیکھا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کابینہ کے ہفتہ واری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئےتصویر: Ronen Zvulun/AFP/Getty Images

حماس کی تجویز کے مطابق یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی کی تاریخ  اور غزہ سے اسرائیلی انخلاء کی ڈیڈ لائن پر بھی اتفاق کیا جائے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا، ''حماس غیر حقیقی مطالبات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا،   "اس معاملے پر ایک اپ ڈیٹ جنگی کابینہ اور سکیورٹی کابینہ کو پیش کی جائے گی۔‘‘

حماس کو اسرائیل، امریکہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم  قرار دے رکھا ہے۔

اسرائیل کی غزہ میں امداد کے متلاشیوں پر فائرنگ کی تردید

غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق جمعرات کو غزہ شہر میں انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے افراد پر اسرائیلی فوج کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے امداد کے خواہاں ان لوگوں کو مارنے کی تردید کی ہے۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ اس حملے میں 155 افراد زخمی بھی ہوئے۔ وزارت کا مزید کہنا تھا کہ طبی عملہ وسائل کی کمی کے باعث زخمیوں سے نمٹنے کے قابل نہیں رہا۔

اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں ایڈ کے حصول کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر فائرنگ کرنے کی تردید کی ہےتصویر: Ahmed Gomaa/Xinhua/IMAGO

شمالی غزہ کے ایک ہسپتال میں ایمرجنسی سروسز کے ڈائریکٹر محمد غریب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ شمالی غزہ میں واقع کویتی چوراہے میں فوڈ ٹرک کے انتظار میں کھڑے لوگوں پر اسرائیلی فورسز کی جانب سے براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔

جائے وقوعہ پر موجود اے ایف پی کے ایک صحافی نے کئی لاشوں اور زخمیوں کو دیکھا، جنہیں گولی ماری گئی تھی۔

اسرائیل فوج کے ایک ترجمان نے کہاکہ اسرائیلی دفاعی افواج پر امداد کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر گولی چلانے کا الزام 'غلط‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج اس واقعے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔

 امدادی بحری جہازغزہ کے ساحل پر

تقریباً 200 ٹن خوراک سے لدا ایک جہاز جمعہ کے روز غزہ کے ساحل پر پہنچا ہے۔ اس جہاز کی آمد کا ایک مقصد  اس محصور  ساحلی پٹی میں قحط کے خطرے سے نمٹنے کے لیے سمندر کے راستے ایک نئی امدادی راہداری کھولنا  ہے۔

 ایک ہسپانوی امدادی ایجنسی کے ذریعے چلائے جانے والے اوپن آرمز جہاز میں یو ایس ورلڈ سینٹرل کچن چیریٹی کی طرف سے ترتیب دیا گیا کھانا لایا گیا ہے۔

اوپن آرمز جہاز میں یو ایس ورلڈ سینٹرل کچن چیریٹی کی طرف سے کھانا لایا گیا ہےتصویر: AFP

 فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ مٹھی بھر شہری ساحل پر قریب آتے ہوئے جہاز کو دیکھنے کے لیے جمع ہیں۔  اس جہاز کے راستے امداد کامیاب ہونے کی صورت میں ایک نیا سمندری راستہ غزہ میں بھوک کے بحران کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ تاہم امدادی ایجنسیوں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ زمینی راستے سے امدادی سامان حاصل کرنے میں مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے سمندری اور فضائی راستے سے امداد کی ترسیل کافی نہیں ہے۔

ورلڈ سینٹرل کچن نے اس ہفتے کے شروع میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا تھا کہ 200 ٹن امداد تقریباً 500,000 کھانوں پر مشتمل ہے۔ اس حساب سے جہاز پر لدی اس خوراک سے تقریباً 2.3 ملین افراد کی آبادی والی غزہ کی پٹی کے ایک چوتھائی سے بھی کم لوگوں کو صرف ایک بار کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔

ش ر⁄ ک م، رب (روئٹرز، اے ایف پی)

غزہ: امدادی قافلے کا حادثہ، ایک سو سے زائد افراد ہلاک

02:39

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں