1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستمقبوضہ فلسطینی علاقے

حماس کی طاقت آدھی رہ گئی ہے، اسرائیل

12 فروری 2024

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کے 12 ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں اور اب اس فلسطینی عسکریت پسند گروپ کی طاقت کم ہو کر نصف رہ گئی ہے۔

Gazastreifen Rafah | Nachwirkungen israelischer Angriffe
تصویر: Palestinian Civil Defence/REUTERS

اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق غزہ کی جنگ کے دوران اب تک عسکریت پسند تنظیم حماس کے بارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اب یہ عسکری تنظیم اپنی نصف قوت سے محروم ہو چکی ہے۔

اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالا جائے، ابراہیم رئیسی

یرغمالیوں کی رہائی: بلنکن کی اسرائیلی کابینہ ارکان سے ملاقات

اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا، ''ہم یہاں حماس کی بٹالینز کے تین چوتھائی کی بات کر رہے ہیں، جس میں بارہ ہزار سے زائد دہشت گرد مارے گئے۔‘‘

اگر اس میں زخمی ہونے والوں یا پکڑے جانے والوں کو بھی شامل کر لیا جائے، تویہ حماس کی نصف جنگجو فورس بنتی ہے، جو اس لڑائی میں نشانہ بنی۔

رفح میں ایک تازہ اسرائیلی فضائی حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئےتصویر: Palestinian Civil Defence/REUTERS

اسرائیل رفح میں فوجی پیش قدمی پر سنجیدگی سے نظرثانی کرے، برطانیہ

برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں بڑی عسکری پیش قدمی پر سنجیدگی سے نظرثانی کرے۔

پیر کے روز جنوبی غزہ میں ایک فضائی حملے میں بھاری جانی نقصان کے تناظر میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ رفح کے علاقے میں موجود افراد کے پاس محفوظ مقامات میں سے کسی کی بھی جانب منتقل ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔

واضح رہے کہ رفح کے علاقے میں تازہ اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ میں حکام کے مطابق 67 فلسطینی ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ اسی دوران ایک آپریشن کے ذریعے اس علاقے سے دو یرغمالی اسرائیلی شہریوں کو بازیاب بھی کرا لیا گیا۔

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے میں 1160 اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ حماس کے جنگجو دو سو چالیس افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ تب سے اب تک سو کے قریب یرغمالیوں کو مختلف ڈیلز کے ذریعے رہا کرایا جا چکا ہے جب کہ اب بھی درجنوں یرغمالی غزہ ہی میں حماس کی قید میں ہیں۔

اسرائیل نے حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ میں حماس کے خلاف بڑی فضائی اور زمینی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ شمالی غزہ سے شروع ہونے والی کارروائی کے بعد اسرائیل کی جانب سے عام فلسطینی شہریوں کو جنوب کی جانب جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ تب سے اب تک یہ فلسطینی شہری متعدد مرتبہ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں اور اب لاکھوں فلسطینی باشندے مصری سرحد کے قریب واقع رفح کے علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس مقام پر بھی اباسرائیل نے بڑی عسکری کارروائی کا منصوبہ بنایا ہے۔

ڈیوڈ کیمرون نے اسی تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''ہمیں اس صورت حال پر بے حد تشویش ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل اس سے باز رہے اور ایسے کسی بھی اقدام سے قبل سنجیدگی سے غور کرے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر اہم یہ ہے کہ ہم اس لڑائی میں وقفہ چاہتے ہیں اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ وقفہ ایک سیز فائر میں تبدیل ہو جائے۔‘‘

عرب ممالک دو ریاستی حل پر زور دے رہے ہیںتصویر: Saudi Press Agency/APA/ZUMA/picture alliance

اقوام متحدہ رفح سے عام شہریوں کو نکالے، اسرائیل

اسرائیل نے غزہ میں سرگرم اقوام متحدہ کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ رفح کے علاقے سے عام فلسطینی شہریوں کا انخلا یقینی بنایا جائے۔ اسرائیلی حکومت کے ایک بیان کے مطابق، ''ہم اقوام متحدہ کی ایجنسیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تعاون کریں۔ ہمارے ساتھ مل کر کوئی راستہ نکالیں۔‘‘

واضح رہے کہ اسرائیلی دستے رفح کے علاقے میں ایک بڑے عسکری آپریشن کی تیاری کر رہے ہیں، تاہم اس علاقے میں لاکھوں فلسطینی باشندے پناہ لیے ہوئے ہیں۔

اسرائیل - حماس جنگ: یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ

02:08

This browser does not support the video element.

دو ریاستی حل کے لیے ناقابل تنسیخ اقدامات درکار ہیں، متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات کے سفیر برائے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد تعمیر نو سے متعلق کسی بھی علاقائی تعاون سے قبل دو ریاستی حل سے متعلق ناقابل تنسیخ اقدامات کی ضرورت ہے۔ لانا نصیبہ کے مطابق اس بابت عرب ممالک کے درمیان مکمل اتفاق رائے ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تباہ کن لڑائی کے خاتمے کے بعد کسی بھی قسم کی تعمیرنو سے قبل دو ریاستی حل سے متعلق واضح پیش رفت ہونا چاہیے۔ دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ سے خطاب میں لانا نصیبہ نے کہا، ''ہم بار بار سرمایہ فراہم نہیں کر سکتے، کہ چیزیں بار بار تعمیر کی جائیں اور پھر تباہ کر دی جائیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا، ''دو ریاستی حل سے متعلق ٹھوس اور ناقابل تبدل اقدامات ہوں گے، تو ہی علاقائی ممالک تعمیر نو کے لیے کام پر آمادہ ہوں گے۔‘‘

ع ت / م م، ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں