1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

حماس کے رفح میں محصور عسکریت پسندوں کا کیا بنے گا؟

امتیاز احمد روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ
9 نومبر 2025

حماس کے مسلح ونگ کے مطابق اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے رفح میں موجود اس کے جنگجو اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ کیا ان عسکریت پسندوں کو کوئی ’محفوظ راستہ‘ فراہم کیا جا سکتا ہے یا جنگ بندی خطرے میں پڑ سکتی ہے؟

حماس کے جنگجو
حماس نے ثالثوں پر زور دیا کہ وہ ایک ماہ پرانے جنگ بندی کے معاہدے کو خطرے میں ڈالنے والے اس بحران کا حل تلاش کریںتصویر: Omar Al-Qattaa/AFP

نو نومبر  اتوار کے روز حماس نے ثالثوں پر زور دیا کہ وہ ایک ماہ پرانے جنگ بندی کے معاہدے کو خطرے میں ڈالنے والے اس بحران کا حل تلاش کریں۔ ثالثی کی کوششوں سے واقف ذرائع نے جمعرات کو نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ حماس کے جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے کے بدلے انخلا کے محفوظ راستے کی پیشکش کی جا سکتی ہے تاکہ یہ تعطل ختم ہو سکے۔

ایک مصری سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ مصری ثالثوں نے تجویز دی ہے کہ محفوظ راستے کے بدلے رفح میں موجود جنگجو اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریں اور وہاں موجود سرنگوں کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ انہیں تباہ کیا جا سکے۔

القسام بریگیڈز کے اتوار کے بیان میں اسرائیل کو جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ بیان کے مطابق رفح میں موجود جنگجو اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

اس گروپ نے کہا، ''دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہتھیار ڈالنے اور خود کو حوالے کرنے کا تصور القسام بریگیڈز کی لغت میں موجود نہیں۔‘‘

دوسری جانب امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ تقریباً 200 جنگجوؤں کے لیے تجویز کردہ معاہدہ غزہ بھر میں حماس کی فورسز کو غیر مسلح کرنے کے وسیع عمل کا ایک امتحان ہو گا۔

امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ تقریباً 200 جنگجوؤں کے لیے تجویز کردہ معاہدہ غزہ بھر میں حماس کی فورسز کو غیر مسلح کرنے کے وسیع عمل کا ایک امتحان ہو گاتصویر: Ramadan Abed/REUTERS

القسام بریگیڈز نے رفح میں جنگجوؤں کے حوالے سے جاری بات چیت پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اشارہ دیا ہے کہ یہ بحران جنگ بندی کو متاثر کر سکتا ہے۔

اس گروپ  کا مزید کہنا تھا، ''ہم ثالثوں کو ان کی ذمہ داریوں کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں اور انہیں جنگ بندی کے تسلسل کو یقینی بنانے اور دشمن کو بے بنیاد بہانوں سے اس کی خلاف ورزی کرنے اور صورت حال کا فائدہ اٹھا کر غزہ میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔‘‘

10 اکتوبر کو امریکہ کی ثالثی میں نافذ ہونے والی جنگ بندی کے بعد سے رفح کے علاقے میں اسرائیلی فورسز پر کم از کم دو حملے ہو چکے ہیں، جن کا الزام اسرائیل نے حماس پر عائد کیا ہے۔ تاہم اس عسکریت پسند گروپ نے اس ذمہ داری سے انکار کیا ہے۔

جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے رفح تشدد کا گڑھ بنا ہوا ہے، جہاں تین اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی نے جوابی کارروائیاں کرتے ہوئے درجنوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔

ایک مصری سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ مصری ثالثوں نے تجویز دی ہے کہ محفوظ راستے کے بدلے رفح میں موجود جنگجو اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریںتصویر: Dawoud Abu Alkas/REUTERS

دریں اثنا دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہتھیار ڈالنے اور خود کو حوالے کرنے کا تصور القسام بریگیڈز کی لغت میں موجود نہیں نے آج اتوار کے روز غزہ میں ہلاک ہونے والے ایک اسرائیلی فوجی ہدار گولڈن کی لاش اسرائیل کے حوالے کی کر دی۔

جنگ بندی کے بعد سے حماس نے 28 میں سے 23 ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں تباہی کی وجہ سے لاشوں کا پتہ لگانا مشکل ہو چکا ہے جبکہ اسرائیل حماس پر تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام لگا رہا ہے۔

غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل نے ابھی تک 300 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ پٹی میں حکام کو واپس کی ہیں۔

حماس کی قیادت میں عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023ء کے حملوں میں 251  اسرائیلیوں کو اغوا کر لیا اور اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائی میں غزہ پٹی میں تقریباً 69,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ معاہدہ کیسے ہوا اور ٹرمپ کا کردار کیا رہا؟

02:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں