حملہ آور فلسطینی اسرائیلی خفیہ ادارے کا کارکن تھا !
18 اگست 2010آج بدھ کو اسرائیلی ریڈیو سے باتیں کرتے ہوئے وکیل اویتال ہوریف نے کہا کہ اُس کے مؤکل ندیم انجاز نے ’1990ء کے عشرے کے دوران اور رواں عشرے کے اوائل میں فلسطینی حملوں کو ناکام بنایا اور ایسا کرتے ہوئے بہت سے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کی جانیں بچائیں‘۔ اویتال ہوریف نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں اُس کے مؤکل کو خطرہ ہے کیونکہ وہاں اُسے موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
ہوریف نے مزید بتایا کہ جب اُس کے مؤکل نے اِس سیکرٹ سروس سے مدد کی درخواست کی تو شن بیت نے اُس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم
ملک کی داخلی سیکرٹ سروس نے اِس بات کی تردید کی ہے کہ ندیم انجاز نے کبھی بھی اُس کے لئے کام کیا تھا۔ شن بیت کے ایک ترجمان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’ندیم انجاز نے کبھی بھی ہمارے لئے کام نہیں کیا اور پولیس اُس کے کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔‘‘
اِس فلسطینی نے منگل کو تل ابیب میں ترکی کے سفارت خانے میں گھس کر وہاں ایک شخص کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔ اُس کا مطالبہ تھا کہ اُسے ترکی میں سیاسی پناہ دی جائے۔ اِس فلسطینی کے پاس ایک چاقو کے ساتھ ساتھ ایک کھلونا پستول بھی تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے اِس حملہ آور پر فوری طور پر قابو پا لیا۔ اِسی دوران اِن اہلکاروں کی فائرنگ سے اِس فلسطینی کی ٹانگ پر معمولی زخم بھی آئے، جن کے لئے اُسے گرفتاری کے فوراً بعد ایک ہسپتال لے جایا گیا تھا۔
ندیم انجاز نامی یہ فلسطینی مغربی اُردن کے شہر راملہ میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کے وکیل کا کہنا ہے کہ اُس کے مؤکل کو ابھی تین ہفتے پہلے ایک اسرائیلی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وہاں وہ چوری کے ایک مقدمے اور اسرائیل میں غیر قانونی قیام کے الزامات میں سزا پانے کی وجہ سے قید بھگت رہا تھا۔ ندیم انجاز نے 2006ء میں اِسی انداز میں برطانوی سفارت خانے میں بھی گھسنے کی کوشش کی تھی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ