1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حملہ آپریشن ضرب عضب کا ردعمل ہوسکتا ہے‘

رفعت سعید/ کراچی10 ستمبر 2014

چھ ستمبر کو کراچی کی ڈاکیارڈ پر دہشت گردوں کے حملے کو پاکستان نیوی نے ناکام بناتے ہوئے تین دہشت گرد مار گرائے۔ جبکہ چار کو زندہ پکڑ لیا گیا۔

تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

فائرنگ کے تبادلے میں ایک نیوی افسر جاں بحق اور سات زخمی ہوئے۔ گرفتار دہشت گردوں سے دوران تفیشن ہونے والے انکشافات کی روشنی میں ملک گیر آپریشن شروع کیا گیا اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں اور اب بھی کی جارہی ہیں۔

یہ پہلی بار نہیں کہ دہشت گردوں نے پاکستان نیوی کی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہو۔ بلکہ اس سے قبل پی این ایس مہران پر حملہ، نیوی کی ٹرانسپورٹ بسوں پر سڑک کنارے نصب بموں سے حملے اور افسران کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی ہے۔ مگر ماضی کے برخلاف ڈاکیارڈ حملے کی خبر نہ صرف محدود رکھا گیا بلکہ حملے کی مکمل تفصیلات کی بجائے محدود معلومات جاری کی گئی ہیں۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک روز قبل اور آج بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو ڈاکیارڈ حملے سے متعلق بریفنگ دی۔ جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ حملہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ حملے میں اندر کے ہی لوگ ملوث ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق آرمی اور فضائیہ کے مقابلے میں پاکستان نیوی میں مذہبی اور انتہاہ پسندانہ سوچ کے حامل افراد کی تعداد قدرے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوی کے افسران اور تنصیبات پر پے در پے حملے ہورہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت صرف تین ماہ قبل فورس سے علیحدہ ہونے والے اویس جاکھرانی کا حملے میں مارا جانا ہے۔ اویس جاکھرانی سندھ پولیس کے اسسٹینٹ انسپکٹر جنرل پولیس علی شیر جاکھرانی کا بیٹا ہے جو گھر سے لاہور جانے کا کہہ کر نکلا اور دو روز بعد اسکی لاش کی شناخت اُس کے گھر والوں نے ایدھی سرد خانے میں کی۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اویس جاکھرانی اے آئی جی علی شیر جاکھرانی کا بیٹا ضرور ہے لیکن یہ ایک فرد واحد کا ذاتی فعل ہے۔ لیکن ہم محکمہ پولیس میں اسکرینگ کررہے ہیں تاکہ اسطرح کے عناصر کی نشاندہی ہوسکے۔ انکا کہنا تھا کہ حملے کی تفتیش ابھی تک تو حساس ادارے خود کررہے ہیں اور کسی بھی گرفتار ملزم تک نہ تو پولیس کو رسائی دی گئی ہے اور نہ ہی اس سے حاصل ہونے والی معلومات شیئر کی گئی ہیں۔ لیکن جب اس حملے کا مقدمہ درج ہوگا تو پھر پولیس سے بھی مدد لی جائے گی۔

سینیئر صحافی کاشف فاروقی کی رائے میں کراچی میں مذہبی انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اور اسی بنا پر حکومت کو توقع تھی کہ آپریشن ضرب عضب کا ردعمل جب بھی سامنے آئے گا ممکنہ طور پر کراچی اسکا نشانہ ہوگا کیونکہ ایک تو کراچی میں انتہاہ پسند تنظیموں کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے جسے ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود بھی توڑا نہیں جاسکا ہے اور دوسرا یہاں کی جانے والی کسی بھی کارروائی کو دنیا بھر کے میڈیا میں غیر معمولی جگہ ملتی ہے اور اس کے براہ راست اثرات ملکی معیشت پر ہوتے ہیں اور یہی دہشت گردوں کا مقصد ہے۔ ملکی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے حلقے نیوی ڈاکیارڈ پر حملے کو ایمن الظواہری کے حالیہ بیان سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ جس میں انہوں نے جنوبی ایشیا میں اپنی تنظیم کی کارروائی بڑھانے کی بات کی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں