1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حملہ کر سکنے والے مسلم انتہا پسند کم ہو گئے، جرمن وزیر داخلہ

عاطف بلوچ Kate Martyr
21 دسمبر 2019

جرمن حکومت کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس کے دوران مسلم انتہا پسندوں کی طرف سے لاحق خطرات میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس کی وجہ برلن دہشت گردانہ حملوں کے بعد سکيورٹی اداروں کا چوکس ہونا بتایا گیا ہے۔

Deutschland mutmaßlicher IS Terrorist Gericht in Frankfurt
تصویر: Reuters/R. Orlowski

جرمن وزارت داخلہ کی طرف سے ہفتے کے دن جاری کیے گئے تازہ اعدادوشمار کے مطابق ایسے مسلم انتہا پسندوں کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی ہے، جن کی طرف سے پرتشدد یا دہشت گردانہ حملے کیے جانے کے خطرات ہیں۔

جرمن حکومت کے ایک اہلکار نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ برلن میں سن 2016 کے دوران ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سکیورٹی کو چوکس کرنے کے نتیجے میں یہ بہتری دیکھی جا رہی ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے اور ہفت روزہ ڈی سائٹ میں شائع کیے گئے ان اعدادوشمار کے مطابق نومبر سن دو ہزار نو کے آغاز تک 679 ایسے مسلم انتہا پسندوں کی نشاندہی کی گئی تھی، جو ممکنہ طور پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

اس سے قبل جولائی سن دو ہزار اٹھارہ کے آغاز پر ایسے افراد کی تعداد 774 تھی۔ یہ اعدادوشمار وزرات داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔

جرمن پارلیمان میں داخلہ کمیٹی کے چیئرمین آرمین شُسٹر کے بقول انہیں یقین ہے کہ برلن کی کرسمس مارکیٹ میں دسمبر دو ہزار سولہ کو ہوئے دہشت گردانہ ٹرک حملے کے بعد کیے جانے والی حکومتی اقدامات کی وجہ سے سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں بارہ افراد مارے گئے تھے۔

آرمین شسٹر نے مزید کہا کہ پولیس نے یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ انتہا پسند عناصر کی بھرپور نگرانی کی جائے اور خطرے کی صورت میں فوری کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مشتبہ افراد کے خلاف پہلے کے مقابلے میں قانونی کارروائیوں میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کی جاتی۔

شسٹر نے کہا کہ گروپوں کے علاوہ ایسے مشتبہ افراد پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے، جو کسی گروپ کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن اکیلے ہی حملہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس صورتحال میں بہتری کے لیے سکیورٹی کے اداروں کے علاوہ خفیہ اداروں کی بھی ستائش کی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں