1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

حوثیوں کے خلاف امریکی اتحاد میں عرب ممالک کیوں شامل نہیں؟

22 دسمبر 2023

حوثی اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کے ذریعے مسلم اور عرب دنیا کواپنے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دے رہے ہیں اور ایسے میں کوئی بھی بڑی عرب طاقت کھل کر حوثیوں کے خلاف اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔

Rotes Meer Houthi US-Kriegsschiff  USS Dwight D. Eisenhower Militäreinsatz Frachtschiffe
تصویر: Jorge LeBaron/U.S. Navy/abaca/picture alliance

امریکہ نے جب اس ہفتے کے شروع میں بحیرہ احمر میں سفر کرنے والے تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک کثیر الملکی بحری فوجی اتحاد  کے قیام کا اعلان کیا تو  ابتدائی طور پر کہا گیا  کہ اس اتحاد میں 10 ممالک حصہ لیں گے۔ اس پیشرفت کے فوراﹰ بعد ہی سوالات اٹھے کہ اس اتحاد میں  عرب بحری طاقتوں میں سے کچھ بڑی طاقتیں کیوں شامل نہیں۔

 نومبر کے وسط سے یمن میں حوثی باغی ملیشیا آبنائے باب المندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو ہراساں کرنے کے لیے راکٹ داغ رہے ہیں اور ڈرون حملے کر رہے ہیں۔ ایک سینیئر حوثی اہلکار نے سوشل میڈیا پر کہا کہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا، جب تک غزہ میں 'نسل کشی کے جرائم‘ بند نہیں ہوتے اور خوراک، ادویات اور ایندھن کو غزہ کی محصور آبادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

تمام عالمی شپنگ کا دس سے پندرہ فیصد یعنی تقریباً 18,000 جہاز سالانہ نہر سویز سے گزرتے ہیںتصویر: Hicazi Özdemir/CHROMORANGE/IMAGO

 مشرق وسطیٰ کے خطے کے ایک ماہر ڈینیئل گرلاچ نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسرائیل کے ساتھ دشمنی  کی حوثیوں کے لیے ایک اسٹریٹجک وجہ ہے۔  حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل ان کا اصل دشمن ہے حالانکہ حقیقت میں اسرائیل کے ساتھ  ان کا کوئی براہ راست علاقائی تنازعہ نہیں ہے۔ لیکن حوثی پوری مسلم اور عرب دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔‘‘

 حوثیوں نے انیس نومبر  ایک اسرائیلی تاجر کی مشترکہ ملکیت  گلیکسی لیڈر نامی کارگو جہاز  کو قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے علاقے کے نزدیک سے گزرنے والے دیگر بحری جہازوں پر ڈرون حملے کیے۔  ان کارروائیوں کےنتیجے کے طور پر کئی بڑی شپنگ کمپنیوں نے آبنائے مندب  میں اپنی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ۔ انہی حوثی خطرات کے خلاف تجارتی جہاز رانی کی حفاظت کے لیے امریکی بحری اتحاد کو آپریشن ''پراسپرٹی گارڈین‘‘ کا نام دیا گیا۔

 امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے زیر قیادت 38  ارکان پر مشتمل کمبائنڈ میری ٹائم فورسز یا (سی ایم ایف)  کے تمام ارکان کو حوثیوں کے خلاف بنائے گئے اتحاد میں شمولیت کے لیے مدعو کیا۔  تاہم  اب تک صرف بحرین، کینیڈا، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، ناروے، اسپین، سیشلز اور برطانیہ سمیت نو ممالک نے اس نئے اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔  تاہم اب سب سے بڑا سوالیہ نشان اس اتحاد میں مشرق وسطیٰ کی کسی بڑی بحری طاقت کی عدم موجودگی ہے۔

صرف بحرین  مشرق وسطیٰ کا وہ  واحد ملک ہے، جو اس اتحاد کا حصہ بنا ہے  لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ مشرق وسطی ٰ میں امریکی بحری بیڑے کا مرکزی اڈہ اسی چھوٹی سی خلیجی ریاست  میں قائم ہے۔

حوثیوں کی طرف سے قبضے میں لیا گیا اسرائیلی تاجر کی شراکتی ملکت والا بحری جہاز گلیکسی لیڈر تصویر: Owen Foley/REUTERS

مصر کے لیے کھونے کو بہت کچھ

نہر سوئز مصر کی ملکیت ہے اور پہلے ہی معاشی بحران کے شکار اس ملک کے لیے سالانہ 10 بلین ڈالر تک کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مصر بھی سی ایم ایف کا رکن ہے۔ آپریشن پراسپیرٹی گارڈین سی ایم ایف کی ٹاسک فورس 153 کی سرپرستی میں کام کرے گا، جو بحیرہ احمر کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایران کی نگرانی اور صومالیہ میں  قزاقوں  کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرتکز رکھے گی۔

 مصر نے گزشتہ سال کے آخر میں ٹاسک فورس 153 کی کمان سنبھالی تھی۔ اگرچہ بحیرہ احمر کی صورتحال کی وجہ سے نہر سوئز کی بندش کی وجہ سے مصر کو لاکھوں  ڈالرکا نقصان ہو رہا ہے لیکن قاہر حکومت نے حوثیوں کے حملوں پر تنقید نہیں کی ہے اور نہ ہی انہوں نے کھلے عام اس نئے امریکی بحری اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ایسا غالباً مصر کی غ‍زہ کے تنازع سے قربت اور عام طور پر عرب دنیا میں اس معاملے کے بارے میں حساسیت کی وجہ سے ہوا ہے۔

سعودی عرب: حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات

دوسری جانب سعودی عرب بھی امریکی زیر قیادت سی ایم ایف کا رکن ہے۔ تاہم سعودی عرب بھی حال ہی میں ایک طرف حوثیوں اور دوسری طرف حوثیوں کے مدد گار ایران  کے ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ سعودی عرب 2015 سے یمن کی خانہ جنگی میں حوثیوں کے خلاف فوجی اتحاد کی قیادت کرتا آیا ہے۔ تاہم اب ریاض حکومت  حال ہی میں اس تنازعے سے خود کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق سعودیوں نے امریکی بحری اتحاد میں اس لیے شمولیت اختیار نہیں کی ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے ان کے حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو نقصان پہنچے گا اور ممکنہ طور پر ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ حوثی سعودی تیل کے ذخائر پر دوبارہ حملہ کریں، جیسا کہ انہوں نے 2019 کیا تھا۔ حوثیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب نئے بحری اتحاد میں شمولیت اختیار کی تو وہ ان پر بھی حملے کریں گے۔

سعودی حکومت کے مستقبل میں ملکی ترقی کے بہت سے اہم منصوبے بحیرہ احمر کے ساحلوں پر ترتیب دیے گئے ہیںتصویر: Balkis Press/ABACA/picture alliance

متحدہ عرب امارات کا سخت نقطہ نظر

 متحدہ عرب امارات نے بھی  امریکی بحری اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی  لیکن وہ تمام حوالوں سے حوثیوں کے خلاف زیادہ سخت گیر موقف میں دلچسپی رکھتا ہے۔

امریکی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز سٹاوریڈس نے اس ہفتے بلومبرگ کے ادارتی صفحے کے لیے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ یو اے ای اور سعودی عرب کے ''حوثیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں مختلف خیالات ہیں۔‘‘  اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا متحدہ عرب امارات باغیوں کے خلاف سخت فوجی کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ ریاض زیادہ  محتاط طریقہ چاہتا ہے۔ انہیں اس جھگڑے کو ایک طرف رکھنے کے لیے قائل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

 اطالوی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل پولیٹیکل اسٹڈیز کی ایک محقق ایلونورا آردیمگنی نے اس ہفتے بیروت کے اخبار کو بتایا، '' متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے سکیورٹی ردعمل سے مطمئن نہیں ہے، جسے حالیہ برسوں میں بہت کمزور سمجھا جاتا ہے۔  وہ ایک مضبوط ردعمل کے حق میں ہیں، جس کا مقصد حوثیوں کی فوجی صلاحیتوں کو کم کرنا اور تجارتی جہاز رانی کے خطرے کو کم کرنا ہے کیونکہ، سعودیوں کے برعکس، وہ دو طرفہ مذاکرات کا حصہ نہیں ہیں۔‘‘

امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے منگل کو ایک پریس بریفنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اس نئے بحری اتحاد میں عدم شمولیت پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''کچھ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس میں حصہ لینے اور اس کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن انہیں فیصلہ خود کرنا ہے، وہ خودمختار قومیں ہیں۔‘‘

کیتھرین شیئر (ش ر، ع ت)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں