حوثی باغیوں کا بحری جہاز پر قبضہ: ’الزامات غلط ہیں،‘ ایران
20 نومبر 2023
یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے بحیرہ احمر کے پانیوں میں ایک بحری جہاز پر قبضے کے بعد ایران نے اس سلسلے میں اپنے خلاف لگائے گئے اسرائیلی الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ یہ بحری جہاز ایک اسرائیلی کاروباری شخصیت کی ملکیت ہے۔
اشتہار
یہ بحری جہاز، جس کا نام 'گلیکسی لیڈر‘ ہے، اتوار 19 نومبر کے روز یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس سے چند ہی روز قبل ان باغیوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ غزہ پٹی کے علاقے میں عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ کے تناظر میں بحیرہ احمر کے خطے میں اسرائیلی جہازوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اشتہار
اسرائیلی الزمات کی ایرانی تردید
ایک اسرائیلی کاروباری شخصیت کی ملکیت اس بحری جہاز پر حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ یمنی باغیوں نے ایسا مبینہ طور پر تہران میں ایرانی قیادت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کیا۔
اس بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے گزشتہ روز کہا گیا تھا کہ یمن کی حوثی ملیشیا کے ارکان نے 'گلیکسی لیڈر‘ نامی شپ کو ''ایرانی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہائی جیک کیا۔‘‘
اس کے جواب میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر 20 نومبر کے روز کہا کہ اسرائیل کی طرف سے اس بحری جہاز پر حوثی باغیوں کے قبضے کے محرکات سے متعلق ایران کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔
ناصر کنعانی کے مطابق، ''ایران کے خلاف عائد کردہ یہ الزامات اسرائیل کی ان کوششوں کا حصہ ہیں، جن کے تحت وہ اس صورت حال سے نکلنے کی کاوش میں ہے، جس کا اسے سامنا ہے۔‘‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ''ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ اس خطے میں مزاحمت کرنے والے گروہ نہ صرف اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں، بلکہ وہ اپنے فیصلے بھی خود کرتے ہیں اور ان کے اقدامات کی بنیاد ان کے اپنے ممالک کے مفادات ہوتے ہیں۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ میری ٹائم سکیورٹی کمپنی ایمبری کے مطابق یہ بحری جہاز 'رے کار کیریئرز‘ نامی گروپ کی ملکیت ہے، جس کا مالک ابراہام رامی اُنگر کا کاروباری ادارہ ہے۔ اُنگر ایک اسرائیلی بزنس مین ہیں۔
حماس اور اسرائیل کی جنگ
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ یہ یرغمالی ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔
اس حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر دی تھی اور ساتھ ہی غزہ پر مسلسل زمینی اور فضائی حملے بھی شروع کر دیے تھے۔ اس بمباری کے نتیجے میں اب تک 13 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
11 تصاویر1 | 11
جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تو اس نے حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کو ایک 'کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے اسے سراہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ تردید بھی کی تھی کہ وہ اس حملے میں کسی بھی طرح ملوث تھا۔ ایران کی طرف سے حماس کی مالی اور عسکری دونوں سطحوں پر مدد کی جاتی ہے۔
امریکہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ کے پیش نظر اپنے دو جنگی طیارہ بردار بحری بیڑے اس لیے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں بھیج چکا ہے کہ یوں واشنگٹن کی ان کوششوں کو تقویت دی جا سکے، جو وہ اس جنگ کو پھیل کے زیادہ وسیع ہو جانے سے روکنے کے لیے کر رہا ہے۔