1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیمن

حوثی باغیوں کا بحری جہاز پر قبضہ: ’الزامات غلط ہیں،‘ ایران

20 نومبر 2023

یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے بحیرہ احمر کے پانیوں میں ایک بحری جہاز پر قبضے کے بعد ایران نے اس سلسلے میں اپنے خلاف لگائے گئے اسرائیلی الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ یہ بحری جہاز ایک اسرائیلی کاروباری شخصیت کی ملکیت ہے۔

یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے قبضے میں لیا گیا مال بردار بحری جہاز گلیکسی لیڈر
یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے قبضے میں لیا گیا مال بردار بحری جہاز گلیکسی لیڈرتصویر: Kristijan Bracun/AP/picture alliance

یہ بحری جہاز، جس کا نام 'گلیکسی لیڈر‘ ہے، اتوار 19 نومبر کے روز یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس سے چند ہی روز قبل ان باغیوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ غزہ پٹی کے علاقے میں عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ کے تناظر میں بحیرہ احمر کے خطے میں اسرائیلی جہازوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اسرائیلی الزمات کی ایرانی تردید

ایک اسرائیلی کاروباری شخصیت کی ملکیت اس بحری جہاز پر حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ یمنی باغیوں نے ایسا مبینہ طور پر تہران میں ایرانی قیادت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کیا۔

کیا یمن کے حوثی مشرق وسطی کے لیے ایک نیا خطرہ ہو سکتے ہیں؟

اس بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے گزشتہ روز کہا گیا تھا کہ یمن کی حوثی ملیشیا کے ارکان نے 'گلیکسی لیڈر‘ نامی شپ کو ''ایرانی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہائی جیک کیا۔‘‘

اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ حوثی باغیوں نے ایک اسرائیلی بزنس مین کی ملکیت یہ مال بردار بحری جہاز ایران کی ہدایت پر اپنے قبضے میں لیاتصویر: Kristijan Bracun/AP/picture alliance

اس کے جواب میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر 20 نومبر کے روز کہا کہ اسرائیل کی طرف سے اس بحری جہاز پر حوثی باغیوں کے قبضے کے محرکات سے متعلق ایران کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔

سعودی یمن سرحد پر حوثی باغیوں کے حملے میں دو فوجی ہلاک

ناصر کنعانی کے مطابق، ''ایران کے خلاف عائد کردہ یہ الزامات اسرائیل کی ان کوششوں کا حصہ ہیں، جن کے تحت وہ اس صورت حال سے نکلنے کی کاوش میں ہے، جس کا اسے سامنا ہے۔‘‘

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ''ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ اس خطے میں مزاحمت کرنے والے گروہ نہ صرف اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں، بلکہ وہ اپنے فیصلے بھی خود کرتے ہیں اور ان کے اقدامات کی بنیاد ان کے اپنے ممالک کے مفادات ہوتے ہیں۔‘‘

یمن میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرت میں پیش رفت

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ میری ٹائم سکیورٹی کمپنی ایمبری کے مطابق یہ بحری جہاز 'رے کار کیریئرز‘ نامی گروپ کی ملکیت ہے، جس کا مالک ابراہام رامی اُنگر کا کاروباری ادارہ ہے۔ اُنگر ایک اسرائیلی بزنس مین ہیں۔

یمن کی ایران نواز حوثی ملیشیا کے ارکانتصویر: Hani Mohammed/AP Photo/picture-alliance

حماس اور اسرائیل کی جنگ

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ یہ یرغمالی ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔

یمن کے لیے بھاری سعودی اقتصادی امداد

اس حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر دی تھی اور ساتھ ہی غزہ پر مسلسل زمینی اور فضائی حملے بھی شروع کر دیے تھے۔ اس بمباری کے نتیجے میں اب تک 13 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

سعودی اور حوثی باغیوں کے درمیان امن مذاکرات

جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تو اس نے حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کو ایک 'کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے اسے سراہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ تردید بھی کی تھی کہ وہ اس حملے میں کسی بھی طرح ملوث تھا۔ ایران کی طرف سے حماس کی مالی اور عسکری دونوں سطحوں پر مدد کی جاتی ہے۔

یمن میں قیدیوں کا تبادلہ امید کی نئی کرن، تاہم امن اب بھی مشکوک

امریکہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ کے پیش نظر اپنے دو جنگی طیارہ بردار بحری بیڑے اس لیے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں بھیج چکا ہے کہ یوں واشنگٹن کی ان کوششوں کو تقویت دی جا سکے، جو وہ اس جنگ کو پھیل کے زیادہ وسیع ہو جانے سے روکنے کے لیے کر رہا ہے۔

م م / ع ت، ر ب (اے ایف پی، اے ایف پی ڈی)

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے

02:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں