حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی میزبانی میں جی ٹوئنٹی ورچوئل چوٹی کانفرنس کے انعقاد کے ایک دن بعد ہی بندرگاہی شہر جدہ میں ایک حکومتی تیل تنصیب کوایک نئے کروز میزائل کا نشانہ بنایا ہے۔
اشتہار
یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے بندرگاہی شہر جدہ میں تیل کی ایک تنصیب پر پیر کے روز میزائل حملہ کیا جس کے نتیجے میں بڑا دھماکہ ہوا اور تیل ٹینک میں آگ لگ گئی۔
سعودی عرب کے حکومتی ادارے آرامکو کی ایک تیل تنصیب پر یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب چند گھنٹے قبل ہی جی ٹوئنٹی ورچوئل سربراہی اجلاس ختم ہوا تھا۔ تقریباً ایک برس قبل بھی ارامکو کی تیل تنصیبات کو اسی طرح نشانہ بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے عالمی تیل منڈی میں اتھل پتھل مچ گئی تھی۔
سعودی وزارت توانائی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ جدہ کے شمال میں واقع پٹرول اسٹیشن پر دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں ایک آئل ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی تھی تاہم اس آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ فائر بریگیڈ کی ٹیمیں آگ بجھانے میں کامیاب ہو گئی ہیں اور اس حملے کے نتیجے میں کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ نیز'دہشت گردی اور تخریب کاری‘ کے اس اقدام کے باوجود ارامکو کے اس اسٹیشن سے تیل کی ترسیل اور فراہمی متاثر نہیں ہوئی ہے۔
'بزدلانہ حملے سے عالمی معیشت کی سلامتی خطرے میں‘
یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف محاذ آرا سعودی قیادت والے اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے اس حملے کے لیے باغیوں کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے کہا ”اس بزدلانہ حملے کے ذریعہ نہ صرف مملکت کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ عالمی توانائی کی سپلائی اور عالمی معیشت کی سلامتی کے مرکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔"
اشتہار
خیال رہے کہ یمنی حکومت کی حمایت میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ جس کے جواب میں باغیوں نے پچھلے سال سے پڑوسی ملک سعودی عرب کے بالخصوص جنوبی سرحد سے ملحق صوبوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ حوثیوں نے پیر کے روز کیے گئے حملے میں قدس۔2 قسم کے میزائل استعمال کیے۔
حوثیوں کی مسلح ونگ کے ترجمان یحییٰ ساری نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کی 'میزائل فورس‘ نے آرامکو کے تیل کی سپلائی کے ایک اسٹیشن کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'قدس۔2 قسم کے میزائل نے اپنے ہدف کو اچوک نشانہ بنایا اور سعودی ایمبولنسیز اور آگ بجھانے والی گاڑیاں متاثرہ مقام پر جاتی ہوئی دیکھی گئیں۔"
بریگیڈیئر جنرل یحیٰ ساری نے اسی کے ساتھ ٹوئٹر پر ایک سیٹلائٹ امیج بھی پوسٹ کی ہے جو شمالی جدہ میں آرامکو کے تیل پلانٹ سے مماثل ہے اور جہاں پٹرولیم مصنوعات ٹینکوں میں بھرے جاتے ہیں۔ یہ تنصیب جدہ کے شاہ عبدالعزیز بین الاقوای ہوائی اڈے کے جنوب مشرق کے قریب واقع ہے۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Mohammed
10 تصاویر1 | 10
اقوام متحدہ نے سویلین تنصیب پر حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
حوثیوں کو دہشت گردتنظیم قراردینے پرغور
دریں اثنا امریکی قومی سلامتی مشیر رابرٹ او برائن نے اعلان کیا ہے کہ امریکا کے پاس یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا سے نمٹنے کے لیے تمام متبادل کھلے ہیں۔
انہوں نے فلپائن کے دورے کے موقع پر صحافیوں کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ واشنگٹن حوثیوں کو مستقل بنیادوں پر دہشت گرد تنظیم قرار دینے پرغور کر رہا ہے۔ انہوں نے حوثیوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ایران سے اپنا تعلق ختم کریں اور ہمسایہ ممالک پر حملوں کا سلسلہ بند کریں۔ او برائن نے مزید کہا کہ واشنگٹن صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔