حوثی باغیوں کا سعودی عرب کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ
10 فروری 2021
یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے ابہا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک سویلین ہوائی جہاز کو آگ لگنے کی اطلاعات ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں سعودی عرب پر حوثی باغیوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن الاخباریہ کے مطابق فائر فائٹرز نے مسافر جہاز کو لگنے والی آگ پر قابو پا لیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایرانی حمایت یافتہ یمن کے حوثی باغیوں کے اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم سعودی حکام نے ابھی تک اس واقعے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
دوسری جانب سعودی عسکری اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف آنے والے ایسے دو ڈرونز کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے، جن کے ذریعے بم حملے کیے جانا تھے۔ انہوں نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح حوثی باغی جان بوجھ کر سعودی عرب کے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نومبر دو ہزار سترہ میں حوثی باغیوں نے ریاض انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا۔ سعودی عرب نے بعدازاں اُس حملے کا الزام ایران پر عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ تہران حکومت سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے لیے حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی بھی ایک رپورٹ کے مطابق حوثی باغیوں کے پاس موجود میزائلوں کے تانے بانے ایران سے ملتے ہیں لیکن تہران حکومت ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتی آئی ہے۔
فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹ فلائٹ ریڈار 24 کے مطابق، جس وقت حوثی باغیوں نے ابہا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا، اس وقت وہاں سعودی ایئرلائنز کے کم از کم دو ایئربَس مسافر طیارے موجود تھے۔
یمن میں تقریبا چھ برسوں سے سرگرم سعودی عسکری اتحاد نے اس حملے کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کا ذمہ دار حوثی باغیوں کو ٹھہراتے ہیں اور ان سے بین الاقوامی قوانین کے مطابق نمٹا جائے گا۔
یمن جنگ سن دو ہزار چودہ میں اس وقت شروع ہوئی تھی، جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر دیگر ملکوں کو ساتھ ملایا اور ایک عسکری اتحاد قائم کیا تاکہ حوثی باغیوں سے نمٹا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے یمن میں دنیا کا بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔
ا ا / ع آ ( اے پی، اے ایف پی)
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔