حوثی باغیوں کے حملے میں سعودی تیل کی تنصیبات کو نقصان
26 مارچ 2022
یمنی حوثی باغیوں نے سعودی عرب میں متعدد حملے کیے جن میں سب سے بڑا جدہ کے آئل ڈپو پر تھا۔ تیل کے گودام اور ترسیلی مرکز میں آگ بھڑک اٹھی۔ حملہ ایسے وقت کیا گیا جب وہاں فارمولا ون ریس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
یمن کے حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جمعے کے روز کیے گئے حملوں میں جدہ میں تیل کے ذخیرے سمیت سعودی عرب میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
باغیوں نے ایک بیان میں کہا، ''ہم نے ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں سے کئی حملے کیے، جن میں جدہ میں آرامکو کی تنصیب اور ریاض میں اہم تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔‘‘
جدہ میں آرامکو کی تنصیبپر گزشتہ اتوار کو بھی حملہ کیا گیا تھا۔ تازہ واقعے میں تیل ذخیرہ کرنے کے دو ٹینکوں میں آگ لگ گئی جس سے آسمان پر دھویں کے بادل چھا گئے، تاہم حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی نے اپنی نشریات میں بتایا کہ 'ایک دشمنانہ کارروائی‘ میں جدہ کی اس تنصیب کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ان حملوں کو 'ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوے سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت سعودی عرب کی اپنے دفاع کو مضبوط بنانے میں مدد جاری رکھے گی۔
سعودی عسکری اتحاد کا فوجی آپریشن
سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق آج ہفتے کے روز سعودی قیادت والے عسکری اتحاد نے ایسے حملوں کو روکنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے۔
عسکری اتحاد کے مطابق وہ حوثیوں کے کنٹرول والے یمنی شہروں صنعا اور حدیدہ میں حملے کر رہا ہے۔ سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کا مقصد 'توانائی کے عالمی ذرائع کی حفاظت اور سپلائی چین کو یقینی بنانا‘ ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپنے مقاصد کے حصول تک فوجی کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
11 تصاویر1 | 11
سعودی عرب میں فارمولا ون ریس
جدہ ہی میں اتوار کے روز فارمولا ون گراں پری ریس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ ریس کا مقام حملے کی زد میں آنے والی آرامکو کی تنصیبات سے محض 11 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
سعودی آرامکو فارمولا ون ریس کو اسپانسر بھی کر رہی ہے۔ اس سرکاری ادارے نے فارمولا ون کے ساتھ سن 2019 میں دس سالہ معاہدہ کیا تھا جس کی مالیت 588 ملین سے لے کر 880 ملین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔
جدہ میں آرامکو کی تنصیب کو جب نشانہ بنایا گیا اس وقت ریس کے لیے ٹریننگ سیشن جاری تھا۔ موجودہ چیمپئن میکس فرشٹاپن کو یوں محسوس ہوا جیسے ان کی گاڑی میں آگ لگ گئی ہے اور انہوں نے ریڈیو پر بتایا، ''مجھے جلنے کی بو آ رہی ہے، لگتا ہے میری کار میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘‘
حملے کے بعد کچھ دیر کے لیے ٹریننگ روک دی گئی تھی۔
ریس کی پروموٹر سعودی موٹر اسپورٹ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ''ہم آرامکو کے ڈپو پر حملے کی صورت حال سے آگاہ ہیں۔ ریس کے منتظمین سعودی سکیورٹی حکام اور فارمولا ون کی گورننگ باڈی سے رابطے میں ہیں اور سکیورٹی اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ریس کا ویک اینڈ شیڈیول معمول کے مطابق جاری رہے گا۔‘‘
اشتہار
فارمولا ون تنازعے کی زد میں
فارمولا ون اور تنازعات کوئی نئی بات نہیں، اسے اکثر آمرانہ حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب میں 81 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس بارے میں جب فارمولا ون کے سربراہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے سعودی عرب پر کی جانے والی تنقید سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔
ان تنازعوں کے باوجود سعودی عرب میں ریس کے انعقاد کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر فارمولا ون کے سی ای او اسٹیفانو ڈومنیکالی نے جواب دیا، ''ہماری یہاں موجودگی سے در اصل ان واقعات پر توجہ مرکوز ہوئی ہے، ورنہ یہ خبروں میں نہ آتے۔‘‘
سعودی عرب نے سن 2015 میں یمن پر حملوں کا آغاز کیا تھا۔ اقوام تحدہ نے گزشتہ برس کہا تھا کہ یمنی جنگ کی وجہ سے 50 لاکھ یمنی باشندے بھوک کا شکار ہیں اور قریب 40 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔