سعودی عرب پر متعدد بیلسٹک میزائل حملوں کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حوثی باغیوں کے پاس یہ میزائل کہاں سے آئے؟ محقق پیٹر ویزمان کے مطابق غالباﹰ یہ ہتھیار یمن میں جنگ سے قبل وہاں موجود نہیں تھے۔
اشتہار
اس بارے میں اسٹاک ہولم میں بین الاقوامی پیس ریسرچ اینسٹیٹیوٹ کے ہتھیاروں اور عسکری پھیلاؤ کے شعبے کے سینیئر محقق پیٹر ویزمان سے ڈی ڈبلیو کی خصوصی گفت گو۔
ڈی ڈبلیو: حوثی باغیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے منگل کے روز سعودی دارالحکومت پر بیلسٹک میزائل داغا۔ ان کے پاس یہ عسکری ٹیکنالوجی کہاں سے آئی؟
پیٹر ویزمان: ہم اس بارے میں اب بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جو میزائل داغے جا رہے ہیں، وہ یمن میں خانہ جنگی سے قبل وہاں موجود نہیں تھے۔ مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ سابقہ یمنی حکومت نے مختلف طرح کے بیلسٹک میزائلوں کے شعیے میں اچھا خاصا سرمایہ خرچ کیا تھا۔ مثال کے طور پر پندرہ برس قبل شمالی کوریا کی جانب سے یمن کو کچھ میزائل مہیا کیے گئے۔ مگر یہ میزائل وہ نہیں جو اب استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جو تصاویر اور معلومات ہم تک پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف طرز کے میزائل ہیں۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Mohammed
10 تصاویر1 | 10
سعودی عرب اور امریکا کا بڑے واضح انداز سے کہنا ہے کہ یہ میزائل ایران کی جانب سے حوثی باغیوں کو مہیا کیے گئے یا ایران نے یمن ہی میں حوثی باغیوں کو یہ میزائل تیار کرنے کی تربیت دی۔ حالاں کہ ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے شواہد مضبوط ہیں، مگر ہمیں اب بھی اس بابت غیرجانبدارانہ تجزیے کی ضرورت ہے۔ خصوصاﹰ یہ تجزیہ کسی ایسے ملک کی جانب سے سامنے آئے، جس کے ایران کے ساتھ اختلافات نہ ہوں۔ ہمیں مزید معلومات درکار ہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ میزائل یمن کہاں سے پہنچے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: کیا حوثی باغیوں کے پاس طویل فاصلے تک مار کی صلاحیت کے حامل میزائل بھی ہو سکتے ہیں؟
پیٹر ویزمان: میرے خیال میں ایسا شاید ممکن نہ ہو کیوں کہ ایسی ٹیکنالوجی حوثیوں کے پاس نہیں ہو سکتی۔ گو کہ ایران کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود ہے، مگر میرے خیال میں ایران کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ حوثی باغیوں کو یہ ٹیکنالوجی دے کر اس مسئلے میں اور زیادہ الجھے۔ ایران کی کوشش ہو گی کہ وہ یہ میزائل فقط اپنے پاس رکھے۔ حوثی باغیوں تک طویل فاصلے تک مار کی صلاحیت کے حامل میزائل کی فراہمی نہ ایران کے اپنے مفاد میں ہے اور نہ ہی حوثی باغیوں کے مفاد میں۔
یمنی خانہ جنگی کی تباہ کاریاں
01:06
کیا ہتھیاروں کی ترسیل پر قدغن اس کشیدگی میں کمی کا باعث ہو سکتی ہے؟
اس وقت مسئلہ صرف ہتھیاروں کی ترسیل کا نہیں ہے۔ حوثیوں اور سعودی فورسز نے ایک دوسرے پر اس انداز سے حملے کیے کہ عام شہریوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسی نکتے پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ حوثیوں کو ریاض کی جانب میزائل نہیں داغنے چاہییں، دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے یمن میں عسکری طاقت کا استعمال دیکھا جائے، تو اس بات پر حیرت نہیں ہو گی کہ حوثی باغی اس کا جواب اس انداز سے دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں بنیادی معاملہ یہ ہے کہ کس طرح فریقین کو مزاکرات کی میز پر لایا جائے اور کس طرح دیگر ممالک فریقین پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ وہ بات چیت پر آمادہ ہوں۔