پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلٰی پنجاب حمزہ شریف کے خلاف مقدمات کی پیروی نہیں کرے گی۔
اشتہار
اس فیصلے سے پی ایم ایل این کی حکومت کے خلاف تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ایجنسی کے اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا ،جس کا یہ الزام تھا کے شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی ہی اسی لیے تھی کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے کیسز کو ختم کروا سکیں۔
ایف آئی اے کی دلیل
ایف آئی اے نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب لاہور ہائی کورٹ کی ایک خصوصی عدالت کچھ ہی دنوں میں 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں شہباز شریف اور حمزہ شریف کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرنے والی ہے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے جو بیان عدالت میں تفتیشی افسر کے ذریعے جمع کرایا گیا ہے، اس کے مطابق ایف آئی اے نے اپنے افسران کو عدالت میں پیش ہونے سے روک دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ شہباز شریف ملک کے وزیراعظم اور حمزہ شریف پنجاب کے منتخب وزیر اعلی ہیں۔ تحریری جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ متعلقہ ادارے فرد جرم عائد کرنے یا مقدمے کی پیروی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اس لیے اس کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
تنقید کا طوفان
ایف آئی اے کے اس فیصلے کو ملک میں کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ملک میں احتساب کے عمل کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کیونکہ پی ایم ایل این کی حکومت اب اپنے رہنماؤں کے خلاف درج ہونے والے کرپشن کے مقدمات سے جان چھڑائے گی۔ اس کے لیے وفاقی حکومت نیب کو غیر مؤثر کرے گی اور ایف آئی اے کو اپنے رہنماؤں کے خلاف تفتیش سے روکے گی۔
پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا، جس کا دعویٰ یہی تھا کہ شریف برادران اقتدار میں صرف اس لیے آنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے اور پیپلزپارٹی سمیت ان کے ساتھ جو اتحادی ہیں ان کے خلاف درج شدہ کرپشن کے کیسز کو ختم کروا سکیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے فیصلے نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے موقف کو درست ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی تو پہلے ہی یہ کہہ رہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ اقتدار میں صرف اس لیے آنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے کیسز، جو ماضی میں درج ہوئے، کا خاتمہ کرائیں اور اب ایف آئی اے کے اس فیصلے نے ان کی اس بات کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی ملک کے طول و عرض میں جلسے جلوس کر رہی ہے اور وہ یقینا اس فیصلے کو ہر جگہ اچھالیں گے، جس سے نون لیگ کو سیاسی نقصان ہوگا اور پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ۔‘‘
حبیب اکرم کے مطابق نہ صرف ایف آئی اے کو تفتیش سے روکا جائے گا بلکہ نیب کا ادارہ بھی غیر مؤثر ہو جائے گا، ''میرے خیال سے یہ فیصلہ سیاسی طور پر دانشمندانہ نہیں ہے اور اس سے نون لیگ کو سیاسی نقصان ہوگا اور عوام میں یہ تاثر مل جائے گا کہ سیاسی رہنما پاکستان میں اداروں کی مضبوطی نہیں چاہتے اور وہ نہیں چاہتے کہ ادارے غیر جانبدار رہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلٰی پنجاب ان تمام قانونی مراحل سے گزرتے تاکہ عوام میں یہ تاثر جاتا کہ ملک میں ادارے بالکل غیر جانبدار ہیں اور وہ ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں جس پر کرپشن کا الزام ہو یا جو کرپشن میں ملوث ہو۔‘‘
اشتہار
ایف آئی اے اور حکومتی ادارے دباؤ میں ہیں
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایف آئی اے کے ایک سابق سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''اس وقت فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے عہدے دار اور وہ افسران جو شہباز شریف، حمزہ شریف اور شریف خاندان کی کرپشن کے حوالے سے تفتیش کر رہے تھے، وہ شدید دباؤ میں ہیں۔ ایف آئی اے کا ایک افسر رضوان، جو ان تمام کرپشن کیسز کی تحقیقات کر رہا تھا، اس کو دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہو گیا۔ اس کی وجہ سے تمام افسران میں بے چینی ہے اور جو لوگ ان مقدمات کی تفتیش رہے تھے، نہ صرف ان کو ہٹایا گیا بلکہ ان کے ماتحت افسران کو بھی ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کے پاکستان میں احتساب کا نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔‘‘
اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر بھی صارفین حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایک ٹوئٹر صارف نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شریف کو اپنے خلاف درج شدہ کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
نوٹس لیا جائے، پی ٹی آئی کا مطالبہ
پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم تو پہلے کہہ رہے تھے کہ یہ مجرموں کا ٹولہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالتیں دوسرے مسائل کے لیے رات کو 12 بجے بھی کھلی ہیں: ''میرا خیال ہے یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ مجرموں کو چھوٹ دی گئی ہے اور یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کے اس ملک میں ایک عام شہری کے ساتھ ایک مختلف قانونی رویہ اختیار کیا جائے گا اور طاقتور مجرموں کے ساتھ رویے مختلف ہوں گے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتیں اور متعلقہ ادارے فوری طور پر پر ایف آئی اے کے اس فیصلے پر نوٹس لیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے مسلم لیگ نون کے مختلف رہنماؤں کواس بارے میں ان کا موقف جاننے کے لیے بار بار پیغامات بھیجے اور ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہی انہوں نے ٹیلی فون اٹینڈ کیا اور نہ ہی پیغامات کے جواب دیے۔