حکمران جماعت کا صدر جیکب زوما کو منصب سے ہٹانے کا فیصلہ
صائمہ حیدر
13 فروری 2018
جنوبی افریقہ میں ایک سینیئر حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت نے ملکی صدر جیکب زوما کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ زوما کو عرصے سے اپنے خلاف بدعنوانی کے کئی بڑے الزامات کا سامنا ہے۔
اشتہار
صدر جیکب زوما کو اُن کے عہدے سے برطرف کرنے کا یہ فیصلہ کئی گھنٹوں کی طویل میٹنگ کے بعد کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق افریقی نیشنل کانگریس یا ’اے این سی‘ کی جانب سے یہ فیصلہ آنے سے قبل تیرہ گھنٹے تک تناؤ زدہ فضا میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ علاوہ ازیں صدر جیکب زوما اور اُن کے متوقع جانشیں، نائب صدر سرل راما فوسا کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی۔
گزشتہ برس دسمبر میں ایک سو چھ سال پرانی حکمران جماعت افریقین نیشنل کانگریس (ANC) کی صدارت کے عہدے کے لیے سیرل راما فوسا کو منتخب کیا گیا تھا۔ تب سے اب تک کثیر الازواج جیکب زوما کی سیاسی پوزیشن ڈولتی کشتی جیسی ہے۔
زوما کی صدارتی منصب سے ممکنہ برطرفی کے لیے پارلیمان کے دو تہائی ارکان کی تائید لازمی ہو گی۔ مقررہ مدت کے مطابق زوما کے عہدے کا عرصہ دو ہزار انیس کے وسط میں پورا ہونا ہے۔
اے این سی کے زوما کو صدر کے عہدے سے برطرف کرنے کے فیصلے کے باوجود مقامی میڈیا میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ زوما پارٹی کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں امکاناﹰ حکمران جماعت کی پارلیمان میں اُن کی نشست ختم کر سکتی ہے۔
اس سے قبل گزشہ رات ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے ایس اے بی سی نے بتایا تھا کہ راماسوفا نے زوما کو اڑتالیس گھنٹے کے اندر استعفیٰ دینے کو کہا ہے۔ توقع ہے کہ آج کسی وقت گزشتہ روز کی میٹنگ کے حوالے سے افریقن نیشنل پارٹی، میڈیا کو بریفنگ دے گی۔
گزشتہ ماہ افریقن نیشنل کانگریس کے نئے سربراہ سیرل رامافوسا نے کہا تھا کہ جیکب زوما کے منصب صدارت سے علیحدہ ہونے کے معاملے کو پارٹی پالیسی کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ خیال رہے کہ جیکب زوما کو کرپشن الزامات کا سامنا ہے اور اس تناظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اُن کے خلاف آ چکا ہے۔
جنوبی افریقہ: نسلی امتیاز کا عروج اور زوال
جنوبی افریقہ کی جدید تاریخ کی عکاسی جس طرح فوٹو گرافی سے ہوتی ہے، شاید ہی کسی دوسرے طریقے سے اس تکلیف دہ دور کو بیان کیا جا سکتا ہو۔ جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت سے آزادی کے تیس سال مکمل ہونے پر مڑ کر تاریخ کو دیکھتے ہیں۔
تصویر: Museum Africa
ٹھیک تیس برس قبل ستائیس اپریل سن 1994 میں جنوبی افریقہ میں پہلی مرتبہ سیاہ فام ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جس کی بدولت نیلسن منڈیلا اس افریقی ملک کے صدر منتخب کیے گئے۔ یوں اس ملک میں نسلی تعصب پر مبنی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
تصویر: Museum Africa
سیاہ فام فوٹو گرافر پیٹر مگابے کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ جرمن فوٹو گرافر ژورگن شادیبرگ نے مگابے کو فوٹو گرافی کے ہنر بتائے تھے۔ لیجندڑی میگزین DRUM میں ڈرائیوار کے طور پر اپنا کیریئر شروع کرنے والے مگابے نے بعدازاں اپنی فوٹو گرافی سے ’نسلی عصبیت کے خلاف بغاوت‘ کے کئی اہم واقعات کو فلمبند کیا، جو اب ان کی پہچان بن چکے ہیں۔
تصویر: Museum Africa, Johannesburg
جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم حکومت نے سن 1950میں رہائشی علاقوں کو نسلی بنیادوں پر تقیسم کرنا شروع کیا۔ تب سیاہ فاموں کے اکثریتی علاقے صوفا ٹاون سے تمام مقامی شہریوں کو نکال دیا گیا اور اسے صرف سفید فاموں کے لیے مختص کر دیا گیا۔ اس کا نام ’ٹری آمپف‘ رکھ دیا گیا۔
تصویر: Museum Africa
مقامی سیاہ فاموں کو روانہ طویل سفر کر کے اپنے دفاتر پہچنا پڑتا تھا۔ مسافروں سے کچھا کھچ بھری ٹرینوں میں مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ فوٹو گرافر سانتو موفوکینگ نے اسی دوران کئی لمحات کو تصویروں میں قید بھی کیا۔
تصویر: Museum Africa, Johannesburg
غداری کے ایک مقدمے میں 1956ء میں جن 156 سیاہ فاموں کو غداری کا مرتکب قرار دیا گیا، ان میں نیلسن منڈیلا بھی شامل تھے۔ ایک برس قبل ہی انہوں نے نسلی امتیاز پر مبنی قوانین کے خاتمے پر زور دیا تھا۔
تصویر: Museum Africa, Johannesburg
جنوبی افریقہ میں 1976ء میں ایک مظاہرے کے دوران بارہ سالہ ہیکٹر پیٹریسن ہلاک ہو گیا تھا۔ فوٹو گرافر سام نزما کی یہ تصویر اس واقعے کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ یہ تصویر دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہوئی ہے۔
تصویر: DW/Ulrike Sommer
ان تصاویر میں ایسے دور کو بیان کیا گیا ہے، جب لمحے لمحے میں تکالیف پنہاں تھیں۔ Craddock Four کی تدفین پر لی گئی ایک تصویر۔ 1985ء میں اپوزیشن کے چار ارکان کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں معلوم ہوا تھا کہ جنوبی افریقہ کی دفاعی افواج اس واقعے میں ملوث تھی۔
تصویر: Rashid Lombard
تین مئی 1994ء کو جنوبی افریقی عوام کے جذبات دیکھنے کے قابل تھے۔ اس وقت انکشاف ہوا تھا کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بننے والے ہیں۔ منڈیلا کے صدر بنتے ہی وہاں کی مقامی سیاہ فام آبادی کے نصیب بھی بدل گئے اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
تصویر: George Hallett
جنوبی افریقہ میں کئی عشروں تک مقامی آبادی تعلیم، صحت اور اقتصادی ترقی سے محروم رہی۔ نسلی امتیاز پر مبنی قوانین کے خاتمے کے بعد اب جنوبی افریقہ ایک جمہوری ریاست بن چکی ہے۔ تاہم ماضی کے زخم اب بھی تازہ معلوم ہوتے ہیں۔