1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومتی بے اعتنائی، کیا کتاب میلے کی روایت دم توڑنے والی ہے؟

6 فروری 2020

گزشتہ 34 سالوں سے باقاعدگی کے ساتھ لاہور کتاب میلے کا انعقاد کرنے والی تنظیم لاہور انٹرنیشنل بک فیئر ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ حکومتی بے حسی کی وجہ سے ان کے لیے آئندہ ایسے کتاب میلوں کا انعقاد کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

Pakistan Internationale Buchmesse in Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad
تصویر: DW/T. Shahzad

جمعرات کے روز لاہور میں شروع ہونے والے چونتیس ویں کتاب میلے کے موقع پر ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین اور لاہور انٹرنیشنل بک فیئر کے منتظم سلیم ملک کا کہنا تھا کہ عوام کی طرف سے کتاب میلوں کی بھرپور پذیرائی کے باوجود حکومت کی طرف سے کتب میلے کی مسلسل حوصلہ شکنی کی وجہ سے اسے مستقبل میں جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

حکومتی شخصیت کتاب میلے کے افتتاح پر تیار نہیں

سلیم ملک نے مزید کہا کہ انہوں نے صدر پاکستان جناب عارف علوی سے اس سال لاہور کے کتاب میلے کے افتتاح کی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے تحریری طور پر ہمیں مطلع کر دیا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ سلیم ملک کے بقول انہوں نے پچھلے سال بھی صدر پاکستان عارف علوی کو کتاب میلے کے افتتاح کی دعوت دی تھی لیکن ان کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ یکم فروری کے روز ملک میں نہیں ہوں گے لیکن یکم فروری دو ہزار انیس کو اخبارات کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ صدر مملکت مری میں موجود ہیں اور ان کا باہر کا کوئی شیڈول نہ تھا۔

سلیم ملک کے بقول،'' اس سال ہم نے پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس سے کتاب میلے کے افتتاح کی درخواست کی لیکن انہوں نے بھی اپنی مصروفیات کی وجہ سے آنے سے انکار کر دیا۔ پچھلے سال وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو ذاتی طور پر ملاقات کر کے اور خطوط لکھ کر دعوت دی گئی لیکن مسلسل یاد دہانیوں کے باوجود وہ وعدہ کر کے بھی نہیں آئے۔ ان کے الفاظ میں وہ نہیں جانتے کہ موجودہ حکومت کی کئی دوسری شخصیات بھی اس علم دوست پروگرام میں شرکت سے گریزکیوں کرتی ہیں۔ ‘‘سلیم ملک کو یاد ہے کہ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور سابق گورنر پنجاب خالد مقبول اپنے اپنے ادوار میں تین تین مرتبہ اس کتاب میلے کے افتتاح کے لیے آئے تھے۔

تصویر: DW/T. Shahzad

کتاب دوستی حکومت کی ترجیح نہیں ہے

لاہور کے کتاب میلے میں شریک پاکستان کے ممتاز شاعر امجد اسلام امجد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لگتا یوں ہے کہ کتاب دوستی حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ان کے بقول کتاب دوستی کے ضمن میں حکومتی شخصیات کے رویے کے حوالے سے تو اب صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے،''مجھے حال ہی میں ترکی نے ایک ادبی ایوارڈ دیا ہے، اس حوالے سے ترکی کے دارالحکومت میں ہونے والی ایک ادبی تقریب میں ترکی کے صدر طیب ایردوآن اپنے نائب صدر اور تین وفاقی وزرا کے ہمراہ شریک ہوئے اور تین گھنٹے تک وہاں موجود رہے۔ اس طرح انہوں نے اپنی نوجوان نسل کو کتاب دوستی کا پیغام دیا۔ پاکستان کے صدر کے پاس تو عام طور پر کوئی خاص کام ہوتا ہی نہیں ہے لیکن پتہ نہیں پھر بھی ان کے پاس کتاب میلے میں شرکت کے لیے وقت کیوں نہیں ؟‘‘

کتابی میلوں کے لیے کوئی رعایت نہیں

اہور انٹرنیشنل بک فئیر کے منتظم سلیم ملک نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ انیس سو ستاون میں بننے والی پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن اور اس کی ذیلی تنظیم لاہورانٹرنیشنل بک فئیر ٹرسٹ کو کبھی بھی ایک پیسے کی گرانٹ نہیں ملی۔ لاہور کا ایکسپو سینٹر کتابوں کے میلے کے انعقاد کے لیے دوسری تجارتی اشیاء کی طرح بارہ لاکھ روپے روزانہ کا معاوضہ لیتا ہے۔کتاب میلوں کو نہ صرف ایک پیسے کی بھی رعایت نہیں دی جاتی بلکہ کتب میلے کے لیے ایکسپو سینٹر کو ادا کی جانے والی رقم پر حکومت بھی اکیس فی صد ٹیکس لیتی ہے۔ کتاب میلے کے شرکاء کے لیے دیگر خدمات کی فراہمی کے ریٹس بھی بہت بڑھ چکے ہیں۔

تصویر: DW/T. Shahzad

 سلیم ملک کے مطابق اس کتاب میلے کی تشہیر کے لیے پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی بھی پچیس سو روپے فی کھمبا فی سٹیمر کے حساب سے بھاری معاوضہ لیتی ہے۔ اس سال تو ٹریفک پولیس نے ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کے باوجود لاہور کی کینال روڈ پر کتاب میلے کے سٹیمر نہیں لگانے دیے۔ ماضی میں کتاب میلے کی تشہیر کے لیے پی ایچ اے قدرے نرمی کر دیا کرتی تھی،'' ہمیں سب سڈی نہیں ملتی شاید ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم کتابوں کا کام کرتے ہیں چینی کا نہیں،‘‘

ناشر بھی دکھی

کتاب میلے میں شریک متعدد پبلشرز نے بتایا کہ عوام کی اس میلے میں بھرپور شرکت کے باوجود یہ میلہ ان کے لیے مالی طور پربہت فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ اس میلے میں ہم رعایتی نرخوں پر کتابیں بیچتے ہیں،''ساٹھ فی صد تک رعایت پر کتابیں دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی کتابوں کو پروموٹ کرنے کے لیے اس موقع کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کی 20 کروڑ کی آبادی میں بیسٹ سیلینگ بکس لکھنے والے شاید 20 کے قریب ہوں گے، یہاں پیسے دے کر کتابیں چھپوانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، پہلے نئی کتاب کا پہلا ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپتا تھا اب یہ تین سو چھپتا ہے، حکومتی لاتعلقی کا عالم یہ ہے کہ نہ صرف بڑے پبلشرز بلکہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں بھی کاپی رائٹس کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھلم کھلا جعلی چھپ رہی ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔‘‘

تصویر: DW/T. Shahzad

کتب بین بھی پریشان

کتاب میلے میں لگائے جانے والے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سٹال پر موجود سرکاری اہلکاروں نے کتابوں کے شائقین کو بتایا کہ سالہا سال سے ریڈرز کلب کے تحت کتب بینوں کو ملنے والی خصوصی سب سڈی بھی تین ماہ پہلے ختم کی جا چکی ہے۔ اب فاؤنڈیشن سے بھی انہیں کتابیں معمول کے بازاری ڈسکاؤنٹ پر ہی ملیں گی۔

لاہور کتاب میلہ جاری

ان سارے مسائل کے باوجود لاہور کے ایکسپو سینٹر میں عالمی کتاب میلہ جاری ہے اور لوگ بڑی تعداد میں یہاں آ رہے ہیں۔ اس میلے میں لگائے گئے دو سو پچھتر سٹالوں پر دو لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں۔ توقع کی جاری ہے کہ پانچ روز تک جاری رہنے والے اس کتاب میلے میں شرکت کرنے والے پانچ لاکھ سے زائد افراد تقریباً پانچ کروڑ روپے کی کتب خریدیں گے۔ اس میلے میں زبان و ادب، سیاست، مذہب، طب، انجینیرئنگ، اور دیگر موضوعات پر ملکی اور غیر ملکی کتابیں موجود ہیں۔ اگرچہ پچھلے اگست سے بھارت سے پاکستان کی تجارت بند ہو چکی ہے لیکن یہاں بھارتی کتب بھی موجود ہیں۔ نادر اور نایاب کتابوں کا بھی ایک سٹال یہاں لگایا گیا ہے۔

کتاب ایمرجنسی

کتاب میلے میں موجود ایک طالبہ اسما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملکی ترقی کے لیے کتب بینی کو فروغ دینا ضروری ہے اس لیے پاکستان میں کتاب ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں