1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت اور پی ٹی آئی ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ پر پہنچ چکی ہیں؟

10 دسمبر 2025

ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین جاری سیاسی کشیدگی عروج پر ہے اور بظاہر اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

Pakistan Peschawar 2023 | Paramilitärs sichern Hauptquartier bei Protesten für Imran Khan - Archivbild
تصویر: Muhammad Sajjad/AP/picture alliance

پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مابین سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں  دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر نے آج بدھ 10 دسمبر کو اسلام آباد می پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے راولپنڈی میں منگل کی رات پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کے استعمال کی شدید مذمت کی۔

مقامی میڈٰیا کہ مطابق عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان نے منگل کے روز‍ اپنے بھائی سے ملاقات کی اجازت نہ دیے جانے کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر کئی گھنٹے کا احتجاجی دھرنا دیا، جسے پولیس نے رات گئے واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے منتشر کر دیا تھا۔

عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان اڈیالہ جیل کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے (فائل فوٹو)تصویر: Waseem Khan/REUTERS

بیرسٹر گوہر نے مطالبہ کیا کہ عمران خان سے ملاقاتیں عدالتی احکامات کے مطابق کروائی جائیں اور ان کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات کو میرٹ پر سنا جائے۔ انہوں نے کہا، ''اگر حکمران چاہتے ہیں کہ عوام کو عمران خان سے نہ ملنے دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے اور یہ کہ عوام کو اشتعال دلانے سے باز رہا جائے۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے منگل کے روز پیش کی گئی پنجاب اسمبلی کی اس قرارداد پر بھی تنقید کی، جس میں عمران خان اور ان کی پارٹی پر ''ملک دشمن‘‘ ہونے کے الزام میں پابندی کی سفارش کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیاسی مفاد کے لیے ملکی ''اکائیوں کو ایک دوسرے کے مقابل لا رہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''آپ ایک بڑی سیاسی جماعت کو الگ تھلگ کر رہے ہیں۔ کیا کسی کو آئینی عمل سے باہر کرنا جمہوریت کو بچاتا ہے؟‘‘  بیرسٹر گوہر نے خبردار کرتے ہوئےکہا،  ''اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک ماہ میں حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے‘‘۔

بیرسٹر گوہر نے حکومتی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''آپ اس لیول پر گر گئے ہیں، اس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اس معاملے پر آج ایوان میں بات کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں موقع نہیں دیا گیا۔  

اس موقع پر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ان کے اہل ‌خانہ اور سیاسی لوگوں سے ہفتے میں طے شدہ دو دن ملاقاتیں کرائی جائیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ عمران خان کو انصاف مہیا کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمات پر حکومتی اثرو رسوخ ختم کیا جائے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو ''فاشسٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عمران خان کی ان کی بہنوں سے ملاقات کرائی جائے۔

اڈیالہ جیل میں قید عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ جیل میں انہیں زہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہےتصویر: Themba Hadebe/AP/picture alliane

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں پی ٹی آئی نے 20 اور 21 دسمبر کو ایک قومی کانفرنس بلائی ہے، جس میں ان کے بقول تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، وکلا برادری اور  اور میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا جائے گا۔

' پوائنٹ آف نو ریٹرن‘

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کےخیبر پختونخوا کے لیے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات اختیار ولی خان نے کہا کہ معاملات اب ناقابلِ واپسی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بدھ کو ایک  پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے  ولی نے کہا،  ''ہم نے جمہوریت کی خاطر بہت برداشت کیا، مگر اب نہ کوئی نرمی ہے، نہ معافی، نہ برداشت۔ بات اب پوائنٹ آف نو ریٹرن پر ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ''مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں۔‘‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو بھی عمران خان کی حمایت کرتا ہے، ''وہ پاکستان کی خود مختاری، عزت اور ترقی کی توہین کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ''اب وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعد خیبر پختونخوا کو بھی پی ٹی آئی کی گندی سیاست سے آزاد کرایا جائے گا۔‘‘

موجودہ سویلین حکومت کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب تصور کیا جاتا ہے، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کی مرضی کے بغیر پی ٹی آئی سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کر سکتی تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency

'مذاکرات ہوں گے‘

مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کے درمیان حالیہ سخت بیانات کے تبادلوں کی وجوہات کیا ہیں؟  اس بارے میں سیاسی اور عدالتی امور کی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مطیع اللہ کا کہنا ہے، '' اس صورتحال کو ''پولیٹکل پاسچرنگ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے اپنے اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور ایک دوسرے کو کسی بھی قسم کی رعایت کے لیے تیار نہ ہوں۔‘‘ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' اگر غور کریں تو اس وقت ن لیگ میں بھی ایسے رہنما موجود ہیں، جو جارحانہ بیان بازی کر رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو حکومت سے سختی سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں جانب ایسے سینئیر لوگ بھی ہیں، جو بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں۔‘‘

مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ یہ بات  طے ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے مابین  مذاکرات ہو گے اور انہی کے ذریعے  موجودہ سیاسی کشیدگی کم ہو گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ دونوں جماعیتں مذاکرات کی میز تک نہیں پہنچتیں، موجودہ سیاسی کشیدگی جاری  رہے گی۔

ادارت: فسر اعوان

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں