حکومت ترک اساتذہ کو ملک بدر نہ کرے، مظاہرین
18 نومبر 2016جمعے کے روز نکالی جانے والی اس احتجاجی ریلی کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ ترک اساتذہ اور ان کے اہل خانہ سمیت لگ بھگ 400 ترک شہریوں کو زبردستی ملک بدر نہ کرے۔ ریلی میں طلبہ اور والدین نے پلے کارڈرز اٹھا رکھے تھے۔ ایک طالبہ کے پلے کارڈ پر لکھا ہوا تھا ’اپنی سیاست کو ہماری تعلیم سے دور رکھو‘۔
ان اسکولوں پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق فتح اللہ گولن تحریک سے ہے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف یہ اسکول نیٹ ورک عدالت سے رجوع کر چکا ہے۔ تاہم گزشتہ روز موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان اساتذہ کو پاکستان کی وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کا کہا ہے۔
پاکستان میں پاک ترک اسکول نیٹ ورک کی 28 شاخیں ہیں جن میں گیارہ سو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا،’’گولن تحریک سے منسلک کسی بھی تنظیم کو پاکستان میں جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان اور ترکی کے مابین جاری تعاون کے نتیجے میں ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ترک صدر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر متحد ہو کر فیصلہ لینے پر پاکستانی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔
پاکستان میں کئی افراد حکومت کی جانب سے ترک اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کو پاکستان چھوڑنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ نواز شریف حکومت نے یہ فیصلہ ’سیاسی وجوہات‘ کی بنا پر کیا ہے۔