1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ احتجاجیوں کا دھرنا جاری: حکام کے دعووں کی تردید

26 دسمبر 2023

بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ اب بھی ان ک 100 سے زیادہ ساتھی پولیس کی حراست میں ہیں۔ تاہم حکام کا دعوی ہے کہ تمام احتجاجیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

Pakistan Dr Mahrang Baloch
تصویر: Abdul Sattar/DW

 

احتجاجی مظاہروں کے شرکا کہا کہنا ہے کہ پولیس انہیں اب بھی ہراساں کررہی ہے اور یہ کہ وہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھیں گے۔بلوچ یکجہتی  کمیٹی کی طرف سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے دھرنا جاری ہے، جس میں نیشنل پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی، پروگریسیو اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے اظہار یکجہتی کے طور پر شرکت کی اس کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ان احتجاجیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اور دھرنے میں شرکت کی۔

حکومت سنجیدہ نہیں ہے: مہرنگ بلوچ

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ نہ ہی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی اور نہ ہی حکومت جبری گمشدیوں کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور یہ کہ حکومت نے جبری طور پہ پہلے سے گمشدہ کیے گئے افراد کو رہا کرنے کی بجائے مزید کو غائب کر دیا ہے۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ حکومت نے تمام احتجاجیوں کو رہا کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ بات بالکل غلط ہے کہ حکومت نے تمام احتجاجیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اب بھی 100 سے زیادہ احتجاجی گرفتار ہیں۔‘‘

جبری طور پہ پہلے سے گمشدہ کیے گئے افراد کو رہا کرنے کا مطالبہتصویر: Hazaran Baloch/BYM

مہرم بلوچ نے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی نے ان سے آج کوئی رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا،''ہمیں اس ملک کی عدالتوں اور سیاست دانوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے ہیں  گو کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ سیاسی رہنما ہیں اور ملک آئین سے چلتا ہے لیکن اگر ملک آئین اور قانون پر چل رہا ہوتا تو گرفتار افراد کو چوبیس گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جاتا، انہیں برسوں سے غائب نہیں رکھا جاتا۔‘‘

پاڑہ چنار کے لاپتہ افراد کہاں ہیں؟

04:54

This browser does not support the video element.

پندرہ ہزار گمشدہ افراد کا ڈیٹا

 ڈاکٹر مہرنگبلوچ  کا کہنا تھا کہ کیونکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے درمیان کافی طویل فاصلہ ہے اس لیے گمشدہ افراد کے حوالے سے مکمل اعداد و شمار مشکل ہیں۔ ان کے بقول،'' یہ مشکل اس وجہ سے آ رہی ہے کیونکہ حکومت ایف آئی آر کٹنے ہی نہیں دیتی۔ میں اپنے بھائی کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے کئی بار تھانے گئی۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ 70 ہزار کے قریب لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے جن میں سے 15 ہزار کا ہمارے پاس مکمل ڈیٹا ہے اور ان لوگوں کا بھی جنہیں ماورا عدالت قتل کیا گیا۔‘‘

کمیشن نے صرف ہمارے دکھوں میں اضافہ کیا ہے

مہرنگ بلوچ کا دعوٰی ہے کہ گمشدہ افراد کے حوالے سے بننے والے کمیشن کا کام صرف متاثرہ افراد کے رشتے داروں کو دھمکیاں دینا ہیں۔ ''بلوچ، سندھی، مہاجر، پشتون اور دوسرے گمشدہ افراد کے رشتے داروں سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ کمیشن کسی کام کا نہیں ہے۔ اور اس کا کام صرف ہمارے دکھوں میں اضافہ کرنا ہے اور ہمیں دھمکانا ہے۔‘‘

اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی دھرناتصویر: Hazaran Baloch/BYM

اس سوال پر کہ دھرنوں کا سلسلہ  کب تک رہے گا، مہرنگ بلوچ نے کہا، ''یہ ریاست پر منحصر ہے۔ جب تک ریاست گمشدہ افراد کو برآمد نہیں کرتی، ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے۔‘‘

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی جماعتوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا،''آصف علی زرداری نے ماضی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کو بازیاب نہیں کراسکتے لیکن وہ درخواست کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ملک آئین سے چلتا ہے، تو وہ کیوں یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم اور چیئرمین سینیٹ سمیت کئی عوامی عہدوں پر بلوچستان سے لوگ موجود ہیں، تو انکا کہنا تھا کہ اس ملک میں کس سیاسی رہنما کے پاس اختیار ہے۔ انہوں نے کہا،''صورت حال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی بلوچوں کو ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ کورٹ نے سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آر کاٹنے کا کہا ہے سرفراز بگٹی ان کو تحفظ دینے کی بات کرتا ہے۔ تو ایسے رہنماؤں سے بلوچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

 

پنجابی مزدوروں کے قتل 

مہرنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ پنجابی مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتی ہیں۔ '' یہ سوال ریاست سے کیا جانا چاہیے۔ ریاست سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ بلوچستان کو کالونی کی طرح کیوں چلایا جارہا ہے۔ ہماری نسل کشی کیوں کی جارہی ہے؟ حقوق کیوں چھینے جارہے ہیں۔‘‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کوئٹہ میں احتجاجتصویر: Abdul Ghani Kakar

پولیس کا موقف

اسلام آباد پولیس کے ترجمان جاوید بلوچ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تحویل میں کوئی بلوچ احتجاجی نہیں ہے۔ جاوید بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''تمام گرفتار شدگان کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔‘‘

ہیومن رائٹس کمیشن کی تشویش

 ہیومن رائٹس کمیشن آفپاکستان  نے ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت نے پرانے گمشدہ افراد کی رہائی کی کوشش کرنے کی بجائے مزید لوگوں کو حراست میں لے کر غائب کر دیا ہے۔ کمیشن کے چیئر پرسن اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں ان اطلاعات پر سخت تشویش ہے کہ حکومت نے مزید لوگوں کو گرفتار کر کے غائب کر دیا ہے اور وعدے کرنے کے باوجود ان کو رہا نہیں کیا گیا اس سے وفاق کے خلاف نفرتوں میں مزید اضافہ ہوگا جو ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔‘‘ اسد بٹ کا کہنا تھا کہ ایچ ار سی پی احتجاج کرنے والوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر احتجاجیوں کے مطالبات کو تسلیم کرے۔ تمام گرفتار شدگان کو رہا کریں اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں