1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت خاموش مگر پاکستانی مذہبی حلقے طالبان کے جھنڈوں کے ساتھ

20 جولائی 2021

حال ہی میں افغان طالبان کے ساتھ لڑنے والے ایک پاکستانی شہری کی نعش کے ساتھ کھڑے ہو کر مذہبی افراد نے پرزور انداز میں اسلامی نعرے بازی کی۔ پاکستانی شہری عبدالرشید ننگرہار میں رواں ماہ کے اوئل میں مارا گیا تھا۔

Pakistan Grenzstadt Chaman Menschen mit Taliban-Flagge
تصویر: Asghar Achakzai/AFP/Getty Images

پاکستان کے مختلف حصوں میں مقیم علما بھی افغان طالبان کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حمایتی عمل میں وہ لوگوں کو طالبان کے لیے عطیات دینے کی اپیلیں بھی کر رہے ہیں۔ پاکستانی صوبے بلوچستان کے شہروں کوئٹہ اور پشین میں مقامی لوگوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان کی حمایت میں جاری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

طالبان امن چاہتے ہی نہیں، افغان صدر

عطیات جمع کرنے کا سلسلہ

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شہری نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں طالبان کی حمایت بڑھی ہے لیکن مقامی انتظامی حکام کی رضامندی کے بغیر ان کے حق میں ریلی نکالنا ممکن نہیں ہے۔ اس شہری کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے مساجد میں علما طالبان کے لیے عطیات دینے کی اپیل کرتے تھے لیکن اب انہوں نے گھر گھر جا کرعطیات اکھٹے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

رواں برس جون میں افغان دارالحکومت کابل میں طالبان مخالف ریلی میں ہزاروں افغان مسلح افراد کی شرکتتصویر: Str./REUTERS

پاکستانی صوبے خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے ایک ترقی پسند رکن پارلیمنٹ محسن داور کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں طالبان کی سرگرمیاں کھلے عام جاری ہیں اور ریاستی مرضی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔

حکومتی ردعمل

طالبان کے لیے عطیات اور چندہ جمع کرنے کی رپورٹوں کو حکومتی اہلکاروں نے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایسی رپورٹوں کو لغو اور من گھڑت کہا ہے۔ یہ اہم ہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان خلافِ قانون قرار دی جا چکی ہے لیکن مبصرین کے مطابق ان کی جانب سے افغان طالبان کو دی جانے والی حمایت سے انہیں بعض حلقوں کی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔

افغانستان: سفارتی مشنوں کی طالبان سے لڑائی روکنے کی اپیل

طالبان کی آخری رسومات پاکستان میں

اس دوران افغانستان میں طالبان کی چڑھائی نے پاکستان کے مذہبی حلقوں میں ایک نیا ولولہ  دیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں درجنوں پاکستانی بھی افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر جنگی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی حکام نے ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدام ابھی تک نہیں اٹھایا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اعلانات میں ان مرنے والے پاکستانیوں کی آخری رسومات میں شریک ہونے کی اپیلیں بھی کی جاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تدفین کی مذہبی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے تھے۔

پاکستانی شہر چمن میں افغان طالبان کے حامیوں کا مظاہرہتصویر: Asghar Achakzai/AFP/Getty Images

افغان صوبے ننگرہار میں ایک بائیس سالہ نوجوان عبد الرشید جولائی کے اوائل میں مارا گیا تھا اور اس کی تدفین گیارہ جولائی کو کی گئی تھی اور اس موقع پر وہاں موجود افراد نے طالبان کی حمایت میں زوردار نعرے بازی بھی کی۔

کابل اور اسلام آباد کے تعلقات: کیا تلخی بڑھے گی؟

اسٹریٹیجک تضادات

کئی افغان اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی اسلام آباد طالبان کی عسکری حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کے ملک میں ٹھکانے بھی ہیں اور یہ پاکستان کی بین الاقوامی شہرت کو داغدار کر سکتا ہے۔ ایک سینیئر صحافی اور تجزیہ کار امبر رحیم شمسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں طالبان کی ایسی ریلیوں سے دو باتیں سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ یہ ریاست کی نااہلی ظاہر کرتی ہے اور دوسری کہ حکومت انتہا پسند گروپوں کو قابو کرنے میں ناکام ہے۔ شمسی کے مطابق عالمی منظر پر ریاست کا موقف اور ہے اور زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔

قطری دارالحکومت دوحہ میں افغان امن کانفرنس میں شریک افغان طالبان کا وفدتصویر: Media office of Afghanistan High Council for National Reconciliation

سیاسی تجزیہ کار قمر چیمہ نے طالبان کی ریلیوں کو ملکی حاکمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے پاکستان میں طالبان کے نظریے کو حمایت ملی ہے اور یہ حکام کے اپنے بیانیے کی ناکامی بھی ہے۔

ہارون جنجوعہ، اسلام آباد (ع ح/ک م)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں