1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت سازی کی کوششوں میں تیزی

عبدالستار، اسلام آباد
12 فروری 2024

پاکستان میں عام انتخابات میں منقسم مینڈیٹ کے تناظر میں مختلف جماعتوں کی جانب سے اتحادی حکومت کے قیام کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی تناظر میں مختلف سیاسی قائدین ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔

Pakistan Wahlen
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images

مختص نشستوں کے حوالے سے پریشان پاکستان تحریک انصاف نے آج اسلام آباد میں اہم اجلاس کے لیے ڈیرے ڈالے جب کہ پیپلز پارٹی بھی اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس منعقد کر رہی ہے، جس کا سب سے اہم نقطہحکومت کی تشکیل ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ نون نے بھی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کوششیں تیز کر دی ہیں اور پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج

آزاد امیدوار 101 نشستوں کے ساتھ سرفہرست

پی پی پی اور نون لیگ میں اہم نکتہ وزارت عظمیٰ کا ہے۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے اس کے سب سے مضبوط امیدوار سابق وزیراعظم نواز شریف ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پارٹی انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کر چکی ہے۔

صدارت حاصل کرنا مشکل نہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے صدارت حاصل کرنا مشکل نہیں ہے اور اس کی پہلی ترجیح وزارت عظمیٰ حاصل کرنا ہے۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر نے ڈی ڈبلیو کو اس حوالے سے بتایا، ''ہمیں صدارت حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کیونکہ صدارتی انتخابات میں بہت اہم کردار صوبائی اسمبلیوں کا ہوتا ہے، جہاںہماری اچھی خاصی اکثریت ہے۔ اصل مسئلہ وزارت عظمیٰ کا ہے۔‘‘

تاج حیدر کا کہنا تھا کہ پارٹی کی پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ اسے وزارت عظمی ملے۔ ''پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے لیکن آج سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہے اور اس میں دیکھیں مختلف آرا سامنے آئیں گی۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک اور رہنما اور سابق سینیٹر سحر کامران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان پیپلز پارٹی ان آزاد اراکین اسمبلی سے رابطے کر رہی ہے جو پی ٹی آئی کا حصہ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی نے تشکیل حکومت کے لیے شہباز شریف سے بھی ملاقات کی ہے۔‘‘

نواز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

آزاد ممبران اسمبلی کیا حکمت عملی بنائیں گے؟

04:44

This browser does not support the video element.

’عددی برتری ہماری ہے‘

 نون لیگ کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ پارٹی کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ بلاول کو وزیراعظم کے طور پر آسانی سے قبول کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عددی برتری ہماری ہے۔ تو اصولاﹰ وزارت عظمیٰ پہ ہمارا حق ہونا چاہیے، جس کے لیے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف موضوع ترین شخصیت ہیں۔‘‘

تاہم اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق نواز شریف کے علاوہ ممکنہ طور پر وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف بھی ایک آپشن ہیں۔

وزارت عظمیٰ کی تقسیم

واضح رہے کہ 2013 سے 18 کے درمیان بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور نیشنل پارٹی کے درمیان ایک سیاسی مفاہمت ہوئی تھی، جس کے تحت ڈھائی سال صوبے کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک رہے اور بقیہ ڈھائی سال میں مسلم لیگ نون کے وزیراعلیٰ نے حکومت کی۔ نون لیگ کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ وزارت عظمی کو بھی تقسیم کیا جائے۔ مسلم لیگ کے ایک رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شراکت اقتدار اور حکومت کی تشکیل کے حوالے سے مختلف فارمولوں اور تجاویز پر غور ہو رہا ہے۔ اس میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ڈھائی سال کے لیے مسلم لیگ نون وزارت عظمیٰ رکھے اور ڈھائی سال کے لیے یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو دے دی جائے۔‘‘

چوبیس گھنٹے بعد بھی الیکشن کے نتائج سامنے نہ آ سکے

05:07

This browser does not support the video element.

محسن نواز رانجھا کے مطابق جس پارٹی کی اکثریت ہو وہ پہلے وزارت عظمیٰ لے اور جس کی اس کے بعد اکثریت ہو ڈھائی سال وزارت عظمیٰ وہ رکھے۔

محسن نواز رانجھا کے مطابق یہ ابھی صرف تجویز کی حد تک ہے، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں بات چیت بھی ہوئی ہے۔ ''اور آج شہباز شریف، بلاول بھٹو اور آصف زرداری والی ملاقات میں بھی یہ تجویز زیر بحث آئی ہے۔‘‘

مدد کے بغیر حکومت کی تشکیل

پاکستان تحریک انصاف نے اس امکان کو پہلے ہی مسترد کر دیا ہے کہ وہ پی پی پی سے اتحاد کرے گی۔ اس کے بعد  یہی لگ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف حزب اختلاف میں بیٹھنا چاہتی ہے۔ پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر انتخابات میں کی گئی دھاندلی کے مسئلے کو الیکشن کمیشن آف پاکستان سنجیدگی سے لے توپاکستان تحریک انصاف آسانی سے اتنی نشستیں حاصل کر سکتی ہے کہ اسے کسی دوسری جماعت کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ مرکز اور پختونخواہ میں آرام سے حکومت بنا سکے گی۔ عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن شعیب شاہین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارٹی کے سامنے بہت سے مسائل ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ مختص نشستوں کا ہے۔ آج اس حوالے سے اہم اجلاس بھی ہے، جس میں حکومت کی تشکیل اور مختص نشستوں کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔‘‘

پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا ہےتصویر: DW

صرف دو جماعتیں

واضح رہے کہ ماضی میں اگر اسٹیبلشمنٹ نے کسی رہنما کو اقتدار سے نکالا ہے تو فوری طور پر اس کو واپس آنے نہیں دیا گیا۔ ممتاز صحافی ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نو مئی ابھی تک نہیں بھولی ہے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ عمران خان کو اقتدار میں آنے دے۔ ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ مل کر حکومت بنائیں۔ عمران خان منظر سے باہر ہیں جب کہ دوسری چھوٹی جماعتیں حکومت نہیں بنا سکتیں۔ تو صرف یہ ہی دو جماعتیں اس پوزیشن میں ہیں۔‘‘

ناصر زیدی کے مطابق کیونکہ ان دو جماعتوں کو  اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت بھی حاصل ہے۔ ''اس لیے یہ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی اور نون لیگ ہی مل کر بنائیں گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں