چانسلر میرکل کے مطابق حکومت سازی کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مذاکرات کا کڑا دور سامنے ہیں۔ ادھر ممکنہ وسیع تر مخلوط حکومت میں مارٹن شلش کے مستقبل کے کردار پر بحث گرم ہو گئی ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ جاری مذاکرات کی کامیابی اور حکومت کے قیام کی امید کا اظہار کیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات یہ حتمی دور کڑا ہے۔
ایس پی ڈی کا اجلاس - جرمنی کے سیاسی مستقبل کا سوال
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انگیلا میرکل کی سی ڈی یو کے ساتھ نئی مخلوط حکومت میں شمولیت کے معاملے پر منقسم ہے۔ آج جرمن شہر بون میں ایس پی ڈی نئی وفاقی مخلوط حکومت میں اپنی شمولیت سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔
تصویر: DW/B. Ünveren
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس میں ارکان مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں حتمی فیصلے کے لیے رائے شماری میں حصہ لے رہے ہیں
تصویر: DW/B. Ünveren
پارٹی سربراہ مارٹن شلس چانسلر میرکل کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے خواہش مند ہیں
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gambarini
لیکن ایس پی ڈی کے نوجوان ارکان اس کی مخالفت کر رہے ہیں
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
ایس پی ڈی نے حال ہی میں میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے
تصویر: picture alliance/dpa/abaca/M. Gambarini
اس معاہدے کے نکات پر پارٹی کے چند سرکردہ رہنما بھی نالاں ہیں
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
تاہم ایس پی ڈی کے زیادہ تر نوجوان مخلوط حکومت بنانے کے بجائے نئے انتخابات کے حق میں ہیں
تصویر: DW/B. Ünveren
چانسلر میرکل کو امید ہے کہ آج کے اجلاس میں ایس پی ڈی مخلوط حکومت میں شرکت کا فیصلہ کرے گی
اتوار کے روز مذاکرات میں شرکت سے قبل چانسلر میرکل کا کہنا تھا، ’’آج ہم ان مذاکراتی کے حتمی دور کے لیے دوبارہ جمع ہوئے ہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مذاکرات مزید کب تک چلیں گے، ہم نے کل اچھا خاصا کام کیا تاہم اب بھی بہت سے امور حل طلب ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں ایک اچھی نیت کے ساتھ آج پر مذاکرات میں شرکت کر رہی ہوں، مگر مجھے یہ توقع بھی ہے کہ آج کے دور میں ہمارے سامنے مذاکرات کا ایک مشکل مرحلہ ہے۔‘‘
میرکل کے مرکزی حریف مارٹن شُلس کا سیاسی کیریئر
سوشل ڈیموکریٹک رہنما مارٹن شلس نے میرکل کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یورپی پارلیمان کی سربراہی چھوڑی تھی۔ تاہم وہ میرکل سے شکست کھا گئے۔ میرکل کے خلاف انتخابات لڑنے والے مارٹن شلس ہیں کون؟
تصویر: Reuters/W. Rattay
یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر
رواں برس کے آغاز تک شلس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Dpa/dpa
ایک متحرک شخصیت
مارٹن شلس کا تعلق ویورزیلین نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس اب بھی اسی چھوٹے سے شہر میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ برسوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
مارٹن شلس اور ملالہ یوسفزئی
پاکستان میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی نے سن دو ہزار تیرہ میں انسانی حقوق کے لیے یورپی پارلیمنٹ کا اعلیٰ ایوارڈ سخاروف پرائز جیتا تھا۔ تب شلس یورپی پارلیمان کے اسپیکر تھے اور انہوں نے ہی یہ ایوارڈ ملالہ کے حوالے کیا تھا۔
تصویر: Reuters
فٹ بالر بننے کا خواب
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس تک بے روز گار بھی رہے۔ شلس اپنے ماضی پر کھل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک لاابالی اور بے پرواہ لڑکا تھا اور اچھا طالب علم بھی نہیں تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سایست میں قدم
شلس 1974 سے ہی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک ہو چکے تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Sevenich
چانسلرشپ کے لیے امیدوار
جنوری 2017ء میں شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلرشپ کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول شہریوں کو اگر یہ احساس ہو کہ وہ تو سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے، تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/HMB Media/H. Becker
امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید
سن 2016 میں شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو انہوں نے یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بارے میں سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان شلس کا کہنا ہے، ’’روس جو کر رہا ہے، وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اپنے انہی خیالات کا برملا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جیت کے امکانات کم ہیں
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ شلس چانسلر میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننے کے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
’میں ہی چانسلر بنوں گا‘
عوامی جائزوں میں اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے باوجود شلس بہت پرامید ہیں اور وہ ان ووٹروں کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کر سکے کہ 24 ستمبر کو وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، ’چانسلر میں ہی بنوں گا۔‘‘
تصویر: Getty Images/M. Hitij
’جمہوریت ہی واحد راستہ‘
مارٹن شلس کا کہنا ہے کہ ’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے‘۔ ناقدین کے مطابق شلس اپنی پارٹی کی مقبولیت میں بہتری کا باعث بنے ہیں لیکن میرکل کو شکست دینا ان کے لیے ایک مشکل کام ہو گا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Kappeler
اپنی اہلیہ کے ساتھ
مارٹن شلس اور ان کی اہلیہ اِنگے شلس کی گزشتہ برس جرمن شہر آخن میں لی گئی ایک تصویر۔ شلس اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو اپنی کامیابی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ مارٹن اور اِنگے شلس دو بچوں کے والدین ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
12 تصاویر1 | 12
ادھر جرمنی میں حکومت سازی کے ان مذاکرات کے حتمی دور میں داخل ہونے کے باوجود یہ واضح نہیں کہ آئندہ حکومت میں شُلس کا کردار کیا ہو گا؟
جرمنی کی دوسری بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی چانسلر انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ ’وسیع تر اتحاد‘ پر مبنی حکومت سازی کے مذاکرات میں شریک ہے، مگر یہ بات اب تک واضح نہیں کیا کہ اس جماعت کے سربراہ مارٹن شُلس آئندہ کابینہ کا حصہ ہوں گے یا نہیں۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں داخلی طور پر بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں کہ آیا مارٹن شُلس کو چانسلر میرکل کی کابینہ کا حصہ ہونا چاہیے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو کہا کہ اب تک اس بارے میں واضح شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ کیا مارٹن شُلس نئی حکومت میں کوئی عہدہ قبول کریں گے یا نہیں۔
گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں مارٹن شُلس کی قیادت میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے انتہائی بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور اسے فقط ساڑھے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ حالیہ کچھ عرصے میں اس جماعت کی عوامی مقبولیت مزید کم ہو کر اٹھارہ تا انیس فیصد رہ گئی ہے۔
مارٹن شُلس، جنہوں نے چانسلر میرکل کے مقابلے میں زبردست انتخابی مہم چلائی، نے ان انتخابات کے بعد کہا تھا کہ ان کی جماعت وسیع تر اتحادی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور وہ ایسی کسی حکومتی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ انتخابات کے بعد ایک بیان میں ان کا کہنا تھا، ’’مجھے ایک بات واضح کر لینے دیجیے، میں ایسی کسی کابینہ کا حصہ نہیں بنوں گا، جس کی سربراہی انگیلا میرکل کریں۔‘‘
کیا جرمنی میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کو ہے؟
03:54
چانسلر انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے فری لبرل ڈیموکریٹک پارٹی FDP اور گرین پارٹی کے ساتھ حکومت سازی کے لیے مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر قدامت پسند اتحاد کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر ایک وسیع تر اتحاد پر مبنی حکومت قائم کرنا پڑ رہی ہے۔ تاہم اس حکومت میں مارٹن شُلس کے شامل ہونے اور بہ طور ایک وزیر اور نائب چانسلر کابینہ کا حصہ بننے کے موضوع پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ پارٹی کا ایک حصہ ایسے کسی اقدام کا حامی نہیں ہے۔ اس جماعت کے متعدد رہنما کہہ چکے ہیں کہ شُلس کو وزیر بننے کی بجائے اپنی توانائیاں پارٹی کو دوبارہ منظم اور فعال کرنے پر صرف کرنا چاہییں تاکہ حالیہ انتخابات میں مسلسل بری کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جماعت میں دوبارہ روح پھونکی جا سکے۔