1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے، پاکستانی طالبان

31 مئی 2013

ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے اپنے نائب سربراہ کی ہلاکت کے بعد پاکستانی طالبان نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی ہے۔ اس پیشرفت کو نواز شریف کی نئی حکومت کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

تصویر: Reuters

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ولی الرحمان کی ہلاکت کے بعد انہوں نے نہ صرف پاکستانی حکومت سے مذاکرات شروع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے بلکہ اب وہ اپنے رہنما کی ہلاکت کا بدلہ لیں گے۔ اطلاعات کے مطابق ولی الرحمان کی تدفین بدھ کو ہی کر دی گئی تھی۔

ولی الرحمان 2009ء میں افغانستان میں ہوئے اُس حملے میں امریکی حکام کو مطلوب تھا، جس میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سات اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ جمعرات کے دن پاکستانی طالبان کی طرف سے جاری کیے گئے بیانات میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں میں اسلام آباد حکومت کی رضا بھی شامل ہے اس لیے اب اس سے امن مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

ایسی متضاد خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ ولی الرحمان کا جانشین چن لیا گیا ہے۔ ولی الرحمان بدھ کے دن شمالی وزیرستان میں ہوئے ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ کچھ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شمالی وزیرستان سے ہی تعلق رکھنے والے خان سعید کو تنظیم کا نائب سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے تاہم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک نامعلوم جگہ سے اے پی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری ہے۔

ولی الرحمان بدھ کے دن ہوئے ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

دو طالبان کمانڈروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا ہے کہ خان سعید کے حق میں ووٹنگ ہو گئی ہے جبکہ احسان اللہ احسان کے بقول ابھی ووٹنگ کا عمل ہونا باقی ہے۔ انٹیلی جنس اور شدت پسندوں کے ذرائع کے مطابق خان سعید کی عمر چالیس برس ہے اور وہ بنیادی طور پر افغانستان میں کیے جانے والے حملوں میں رابطہ کاری کا کام سر انجام دیتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والے متعدد حملوں میں بھی مرکزی کردار ادا کر چکا ہے۔

احسان اللہ احسان نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ اگرچہ حکومت پاکستان بیانات کی حد تک امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرتی ہے تاہم ایسے حملوں میں اسلام آباد کی رضا مندی شامل ہے، ’’ ہم نے حکومت کو نیک نیتی کے ساتھ امن مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کی اجازت سے کیے جا رہے ہیں اس لیے ہم مذاکرات کی پیشکش واپس لیتے ہیں۔‘‘

اے پی کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے ان متنازعہ ڈرون حملوں میں شفافیت پیدا کرنے کا وعدہ کیے جانے کے باوجود پاکستانی قبائلی علاقے میں ہوئے اس نئے ڈرون حملے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے مستقبل میں بھی شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے جاری رکھے گا۔

ab/ng (AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں