1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت طالبان مذاکرات، آغاز سے قبل ہی مشکلات

شکور رحیم، اسلام آباد4 فروری 2014

پاکستان میں حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo

حکومت اور طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی کمیٹوں کا آج منگل چار فروری کو طے شدہ پہلا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ اجلاس حکومتی کمیٹی کی جانب سے باضابطہ مذاکرات کے آغاز سے قبل طالبان کی نمائندہ کمیٹی سے چند وضاحتیں طلب کرنے کی وجہ سے ملتوی کیا گیا۔

حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس آج منگل کے روز وزیرِاعظم ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں متفقہ طور پر طالبان کی کمیٹی سے کچھ وضاحتیں طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور وزیر اعظم کے قومی امور کے معاون عرفان صدیقی کے مطابق مذاکرات کو بامعنی اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے چند باتیں پہلے ہی سے جان لینا ضروری ہیں۔

ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جے یوآئی کی جانب سے انکار کے بعد کیا طالبان قیادت کسی اور کو اپنی کمیٹی میں نمائندگی دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی یہ بھی معلوم کرنا چاہتی ہے کہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے پاس کیا مینڈیٹ ہے اور کیا اس کے ارکان اہم امور پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟‘‘

طالبان نے اپنی طرف سے مذاکرات کے لیے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو بھی نامزد کیا گیا ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے قبل یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طالبان کی نو رکنی نگران کمیٹی کس طرح کام کرے گی اور اس کے اپنی مذاکراتی کمیٹی سے کیا روابط ہوں گے؟ عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وقت ضائع ہونے سے بچانے کے لیے یہ امور طے ہو جانے چاہیں: ’’جب ہم بیٹھیں تو پھر اس مقصد کی طرف بڑھیں جو ہمارے پیش نظر ہے یہ جزئیات اور ٹیکنیکل چیزیں اگر ہم انہی میں الجھے رہے کہ آپ کی کمیٹی کے رکن تین کیوں ہو گئے پہلے پانچ تھے تو دو کہاں گئے اور وہ نو رکنی کمیٹی کہاں ہے تو ان بحثوں کے لیے مل کر ہم کیا کریں گے۔‘‘

عرفان صد یقی کا کہنا تھا کہ ان معاملات کا جواب آنے کے بعد وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب طالبان کی کمیٹی کے ایک رکن مولانا سمیع الحق نے حکومتی کمیٹی کی جانب سے ملاقات ملتوی کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور حکومتی کمیٹی ملکی اور غیر ملکی دباؤ کا شکار ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت آپریشن کی تیاری کر رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اگر حکومتی کمیٹی کسی معاملے پر وضاحت چاہتی ہے تو ملاقات کر کے بھی یہ بات کی جاسکتی تھی۔

مولانا سمیع الحق کا مزید کہنا تھا، ’’طالبان نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت اب جو بھی بات کرے اس کمیٹی کے ذریعے کرے، کسی اور چینل سے ہم بات نہیں سنیں گے۔ تو یہ اعلان سارا ہوگیا ہے۔ اب خود دیکھ لیں کہ حکومت کی سنجیدگی کس حد تک ہے۔ ان کو تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا کہ ہم بیچ میں آگئے، یہ تو ان کے لیے اللہ کی نعمت تھی کیونکہ وہ تو کسی سے رابطہ ہی نہیں کر سکے۔‘‘

تاہم مولانا سمیع الحق کا کہناتھا کہ حکومتی رویے کے باوجود بات چیت کے لیے طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے دروازے کھلے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں