حکومت مخالف مظاہرے: فیس بک پر مظاہرین کے حامی بھی گرفتار
4 نومبر 2019
سوشل میڈیا نے جہاں بہت سے معاشروں میں عوام کو اظہار رائے کی نئی آزادی دی ہے، تو ساتھ ہی کئی ممالک میں انہیں اس آزادی کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔ اس بارے میں ہیومن رائٹس واچ کے بیان کردہ حقائق بہت پریشان کن ہیں۔
اشتہار
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے آج پیر چار نومبر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ عراق میں جو حکومت مخالف عوامی مظاہرے گزشتہ چند ہفتوں سے جاری ہیں، ان کے پس منظر میں ملک کے مغربی صوبے انبار میں اب حکومتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جبر کا ایک نیا طریقہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
7 تصاویر1 | 7
اس عراقی صوبے میں سکیورٹی دستوں نے اب ایسے شہریوں کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے، جو انبار میں حکومت مخالف مظاہروں کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر ان کی حمایت میں مختلف پیغامات پوسٹ کر رہے تھے۔ انبار مغربی عراق کا زیادہ تر صحرائی علاقے والا ایسا صوبہ ہے، جہاں سنی مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔ اس صوبے میں اب تک کم از کم دو ایسے شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جنہوں نے اپنی اپنی فیس بک وال پر حکومت مخالف مظاہرین کی حمایت کی تھی۔ ایک تیسرے سوشل میڈیا صارف کو حکام نے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف نے نے لکھا ہے کہ دارالحکومت بغداد اور جنوبی عراق میں، جو دونوں ہی زیادہ تر شیعہ آبادی والے علاقے ہیں، گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت اور حکمران اشرافیہ کی مبینہ کرپشن کے خلاف جو عوامی مظاہرے جاری ہیں، اس احتجاج کی لہر ابھی تک مغربی عراق یا کرد آبادی والے شمالی عراق میں نہیں پہنچی۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں عام شہریوں کو یہ خوف رہتا ہے کہ اگر انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی تو یا تو ان پر 'دہشت گرد‘ ہونے کا الزام لگا دیا جائے گا یا پھر انہیں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کے حامی کہا جانے لگے گا۔
ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنے ایک بیان میں کہا اور مغربی عراق کے شہریوں نے بھی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ مغربی عراق میں حکام عام شہریوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس طرح اور قریب سے نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی اور اس کا استعمال کسی بھی شہری کی شخصی آزادی کے خاتمے کی وجہ بن سکتا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایسے عراقی شہریوں کے خلاف سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں کی وجہ صرف فیس بک ہی نہیں بلکہ ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے ذرائع سے پوسٹ کیے یا کسی کو بھیجے جانے والے پیغامات بھی بنتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عراق کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق بغداد اور جنوبی عراق سے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران جن سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے بہت سے ابھی تک رہا نہیں کیے گئے۔
انبار میں حکومت مخالف مظاہرین کے حق میں سوشل میڈیا پر پیغامات پوسٹ کرنے والے تین افراد کو تو ایسے پیغامات کی پوسٹنگ کے چند گھنٹے کے اندر اندر ہی گرفتار کر لیا گیا، جبکہ کئی صارف اپنی گرفتاری کے خوف سے زیر زمین بھی چلے گئے ہیں۔
دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ کے لیے ڈائریکٹر سارہ لی وِٹسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''جس طرح انبار میں عراقی حکام نے ایسے صارفین کی طرف سے بالکل پرامن سیاسی پیغامات پوسٹ کیے جانے کے بعد ان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں، وہ عراق میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بہت ہی بری پیش رفت ہے۔‘‘
م م / ع ا (اے ایف پی)
انسٹاگرام ماحول کو بیدردی سے تباہ کر رہا ہے
سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اثر و رسوخ رکھنے والوں نے کچھ حیرت انگیز مقامات کو انتہائی ستم ظریفی سے برباد کر دیا ہے۔ ان کے فالورز انہی قدرتی مقامات کا رخ کرتے ہیں اور کوڑا کرکٹ وہاں چھوڑ آتے ہیں۔
تصویر: instagram.com/publiclandshateyou
سُپر بلوم سے بربادی تک
گزشتہ برس غیرمعمولی زیادہ بارشوں کی وجہ سے جنوبی کیلیفورنیا میں رواں برس جنگلی پھولوں کے کارپٹ بچھ گئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے اس علاقے کا رخ کیا۔ بہت سے لوگ ایک اچھی انسٹاگرام تصویر کے لیے نازک پھولوں کو روندتے اور کچلتے چلے گئے۔ جو کچرا وہاں پھینکا گیا، اسے چننے میں بھی ایک عرصہ لگے گا۔
تصویر: Reuters/L. Nicholson
جب کوئی قدرتی مقام مشہور ہو جائے
امریکا کا دریائے کولوراڈو مقامی خاندانوں کے لیے پکنک کی جگہ ہوتا تھا لیکن انسٹاگرام کی وجہ سے یہ امریکا کا سب سے بڑا سیاحتی مقام بنتا جا رہا ہے۔ انسٹاگرام کے آنے کے بعد سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔ ٹریفک کے مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ مقامی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔
تصویر: imago/blickwinkel/E. Teister
غیر ارادی نتائج
جرمنی کے ایک مقامی فوٹوگرافر یوہانس ہولسر نے اس جھیل کی تصویر انسٹاگرام پر اپ لوڈ کی تو اس کے بعد وہاں سیاحوں نے آنا شروع کر دیا۔ ایک حالیہ انٹرویو میں اس فوٹوگرافر کا کہنا تھا جہاں گھاس تھی اب وہاں ایک راستہ بن چکا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے فوجیوں نے مارچ کیا ہو۔ اب وہاں سگریٹ، پلاسٹک بوتلیں اور کوڑا کرکٹ ملتا ہے اور سیاحوں کا رش رہتا ہے۔
آسٹریا کے اس گاؤں کی آبادی صرف سات سو نفوس پر مشتمل ہے لیکن انسٹاگرام پر مشہور ہونے کے بعد یہاں روزانہ تقریبا 80 بسیں سیاحوں کو لے کر پہنچتی ہیں۔ یہاں روزانہ تقریبا دس ہزار سیاح آتے ہیں۔ نتیجہ کوڑے کرکٹ اور قدرتی ماحول کی تباہی کی صورت میں نکل رہا ہے۔
اسپین کا جزیرہ ٹینیریف سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے۔ یہاں قریبی ساحل سے جمع کیے گئے پتھروں سے ہزاروں ٹاور بنائے گئے ہیں۔ یہ تصاویر کے لیے تو اچھے ہیں لیکن ان پتھروں کے نیچے رہنے والے کیڑوں مکڑوں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔
تصویر: Imago Images/McPHOTO/W. Boyungs
قدرتی ماحول میں تبدیلیاں نہ لائیں
پتھروں کی پوزیشن تبدیل کرنے سے زمین کی ساخت اور ماحول بھی تبدیل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کے شروع میں یہ تمام ٹاور گرا دیے گئے تھے اور ماہرین نے سیاحوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ایسی تبدیلیاں نہ لائیں۔ لیکن اس کے چند ہفتوں بعد ہی سیاحوں نے دوبارہ ایسے ٹاور بنانا شروع کر دیے تھے۔
تصویر: Imago Images/robertharding/N. Farrin
آئس لینڈ کی کوششیں
دس ملین سے زائد تصاویر کے ساتھ آئس لینڈ انسٹاگرام پر بہت مشہور ہو چکا ہے۔ بہترین تصویر لینے کے چکر میں بہت سے سیاح سڑکوں کے علاوہ قدرتی ماحول میں گاڑیاں چلانا اور گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب ایسا روکنے کے لیے سیاحوں سے ایئرپورٹ پر ایک معاہدہ کر لیا جاتا ہے کہ وہ قدرتی ماحول کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/E. Rhodes
شرم کا مقام
ایک نامعلوم انسٹاگرام اکاؤنٹ ’پبلک لینڈ ہیٹس یو‘ انسٹاگرامرز کے غیرذمہ دارانہ رویے کے خلاف کوششوں کا حصہ ہے۔ اس اکاؤنٹ پر ان مشہور انسٹاگرامرز کی تصاویر جاری کی جاتی ہیں، جو قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس طرح امریکی نیشنل پارک سروس نے کئی انسٹاگرامر کے خلاف تحقیات کا آغاز کیا۔