1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت پاکستان لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرے، اقوام متحدہ

20 ستمبر 2012

اقوام متحدہ نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ ملک میں جاری جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکنے کے لیے دیگر اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی کی جائے۔

تصویر: AP

پاکستان کے دس روزہ دورے کے اختتام پر جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی ابتدائی رپورٹ جاری کی۔
اولیور ڈی فروویلے اور عثمان الحاج پر مشتمل دو رکنی ورکنگ گروپ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔ گروپ کے ارکان کا کہنا تھا کہ دورے کے دوران بہت سے اہم افراد نے ان سے ملنے سے انکار بھی کیا، جن میں وزیر قانون، وزیر دفاع اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، آئی جی ایف سی کے علاوہ چاروں صوبائی چیف جسٹس بھی شامل ہیں۔

گروپ نے اپنے دورے کے دوران اسلام آباد، کراچی، پشاور ، لاہور اور کوئٹہ کا دورہ کیا اور وہاں صوبائی حکومت کے ارکان اور سرکاری افسران سے ملاقاتیں کیں۔ گروپ کے مطابق جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے موصول ہونیوالے اعداد و شمار میں بھی واضح تضاد پایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 500 افراد لاپتہ ہیں۔ جبکہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف بلوچستان میں 14 ہزار افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد 1000 سے زیادہ نہیں۔

تصویر: Abdul Sabooh

مسٹر اولیویر کا کہنا تھا کہ سرکاری طور پر درج کیے گئے مقدمات حقیقی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ یہ دراصل مسئلے کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لاپتہ افراد کے اہلخانہ، این جی اوز کے نمائندوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں سے ملاقاتوں کے دوران ایسی معلومات دی گئی ہیں کہ ریاستی ادارے بھی مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پولیس ، ایف سی کی طرح کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور کچھ ایجنسیوں جیسے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے خلاف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال کرنے پر بھی لاپتہ کیا گیا۔مسٹر اولیور مزید بتاتے ہیں، ’’ورکنگ گروپ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق جبری گمشدگیوں کی مشق کو سیاسی اور انسانی حقوق کے اپنے کارکنوں کو ہدف بنانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو قانونی طور پر اپنا آزادی رائے کا حق استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے پاکستانی عدلیہ کے کردار کو خوش آئند قرار دیا ۔ رپورٹ کے مطابق 2007ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے لاپتہ افراد کے مسئلے کا نوٹس لینے کے بعد صوبائی ہائی کورٹس نےبھی ان مقدمات کی سنوائی کی۔ اس کے علاوہ عدالت نے لاپتہ ہونے والے افراد کے مقدمات درج کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک خصوصی باڈی بھی تشکیل دی۔ تاہم رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد میں ایسے مقدمات بے نتیجہ بھی رہے، جن میں عدالت نے لاپتہ افراد کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ مبینہ طور پر عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو تعاون کے لیے زور دینے والے طریقوں سے اجتناب کیا۔

یو این ورکنگ گروپ نے انسانی حقوق سے متعلق کیسز کے سلسلے میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی تربیت پر بھی زور دیا۔ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پیاروں سے جدائی کا غم برداشت کر رہے ہیں اور مستقل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ حکومت کو ان لواحقین کی معاونت کے لیے مناسب اقدامات کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں باقاعدہ طریقہ کار واضح کیا جائے تا کہ ان کی صورتحال کچھ بہتر ہو سکے۔ سترہ نقاط پر مشتمل ابتدائی سفارشات میں گروپ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لیے کسی بھی گرفتار شخص کو سرکاری طور پر تسلیم شدہ جگہ رکھا جائے۔

اس کے علاوہ جبری گمشدگیوں کے خلاف نیا فوجداری قانون بنانے کی سفارش بھی کی گئی۔ گروپ نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات میں ملزم بے شک فوجی بھی ہو، اسے سرکاری فرائض سے ہٹا کر انکوائری کی جائے اور الزام ثابت ہونے پر اس کے خلاف عام عدالت میں مقدمہ چلایا جائے ۔

بلوچستان کے بارے میں گروپ نے کہا کہ کہ وہ اپنے دورہ پاکستان کی حتمی رپورٹ 2013ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پیش کریں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم

ادارت: امتیاز احمد

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں