1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت پر تنقید کرنے والے یوٹیوب چینلز کی بندش کا حکم معطل

عاطف بلوچ روئٹرز، مقامی میڈیا کے ساتھ
12 جولائی 2025

سابق وزیر اعظم عمران خان اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے حامی تصور کیے جانے والے دو درجن سے زائد یوٹیوبرز پر پاپندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Symbolbild | Social Media - Facebook, TikTok, Twitter Instragram und Youtube auf Smartphone Display
تصویر: Dado Ruvic/REUTERS

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے اُس عدالتی حکم کو معطل کر دیا، جس کے تحت سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی مانے جانے والے اور حکومت پر تنقید کرنے والے دو درجن سے زائد یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس پیش رفت کو پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے اچھی خبر قرار دیا جا رہا ہے۔

یو ٹیوب چینلز پر پابندی لگانے کا یہ متنازعہ حکم چند روز قبل اسلام آباد کی ایک جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت نے جاری کیا تھا، جس میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی دو جون کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں ان چینلز پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ''ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف اشتعال انگیز اور توہین آمیز مواد‘‘ پھیلا رہے ہیں۔

تاہم ایڈیشنل سیشن جج نے اس حکم کو معطل کرتے ہوئے سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔

متاثرہ یوٹیوبرز کی وکیل ایمان مزاری کے بقول، ''یہ یکطرفہ فیصلہ تھا جس میں دفاع کا مؤقف سنے بغیر پابندی لگا دی گئی اور مجسٹریٹ عدالت کا اس نوعیت کے معاملے پر دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوٹیوب نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیاتصویر: STRF/STAR MAX/picture alliance

پاکستان میں عدالتی نظام کے تحت ایسے مقدمات سول اور مجسٹریٹ عدالتوں سے شروع ہوتے ہیں، جن کی اپیلیں سیشن، ہائی اور سپریم کورٹ میں سنی جاتی ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں کی طرف سے تنقید

ڈیجیٹل رائٹس کے علمبرداروں اور صحافتی تنظیموں نے اس پابندی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر قدغنیں عائد ہیں اور سوشل میڈیا وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں حکومتی پالیسیوں پر تنقید ممکن ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس گروپس کے مطابق، ''ایسی کسی بھی پابندی سے ملک میں پہلے سے محدود آزادی اظہار مزید متاثر ہو گی اور سیاسی مخالفت کی آوازوں کو دبانے کا ایک اور ہتھکنڈہ بنے گی۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوٹیوب نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔

پاکستان میں سیاسی کشیدگی اور آزادی اظہار کے محدود ہوتے دائرے کے تناظر میں یہ معاملہ خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اب توجہ اکیس جولائی کی سماعت پر مرکوز ہے، جہاں اس پابندی پر حتمی فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

 ادارت: عاصم سلیم

پاکستان میں کئی یوٹیوب چینلز بلاک کرنا درست فیصلہ تھا؟

02:32

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں