1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستان کی امریکا پر برہمی

ندیم گِل3 نومبر 2013

اسلام آباد حکومت نے امریکی ڈرون حملے میں پاکستانی طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر انتہائی سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ امریکی سفیر کو وضاحت کے لیے دفتر خارجہ بھی طلب کر لیا گیا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اس ڈرون حملے کو امن کی کوششوں کا ’قتل‘ قرار دیا۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ عمل جاری رہے گا۔

نثار علی خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی امریکی سفیر کو خبردار کیا تھا کہ ایسے وقت میں ڈرون حملے نہیں ہونے چاہیئں جب پاکستان امن مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس دوران طالبان کے کسی رہنما کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ بعدازاں حکومت نے وضاحت کے لیے امریکی سفیر کو طلب کر لیا۔

پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خانتصویر: picture-alliance/dpa

جب وزیر داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا دانستہ امن عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا: ’’بالکل۔‘‘

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ امریکا ایسی کوششوں سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم انہوں نے سوال کیا: ’’وہ ہمیں عدم تحفظ کا شکار کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟‘‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے ردِ عمل میں پاکستان سے گزرنے والا نیٹو کا سپلائی رُوٹ بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خیبر پختونخواہ صوبے کی حکومت کو اس مقصد کے لیے ایک قرارداد منظور کرنے کےلیے کہیں گے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں ایسی ہی قرارداد منظور کروانے کی کوشش کریں گے۔

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت نے امریکا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ اے پی کے مطابق حالانکہ امریکا نے پاکستان کے اوّل نمبر دشمن کو مٹایا ہے، پھر بھی باہمی تعلقات میں تازہ سرد مہری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادیوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگی کس حد تک جا سکتی ہے۔

حکیم اللہ محسودتصویر: REUTERS/Reuters TV

دونوں ملک ڈرون حملوں اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کے لیے پاکستان کی مبینہ معاونت جیسے مسائل پر بارہا الجھ چکے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا رہنما حکیم اللہ محسود ایک ایسا بے رحم شخص تھا جسے افغانستان میں سی آئی اے کے ایک اڈے پر حملے اور پاکستان میں جاری اس خونی مہم کے لیے جانا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی شہری اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ گروہ پاکستان کے جمہوری نظام کو ختم کر کے ایک سخت گیر اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتا ہے۔ یہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے غیرمقبول اتحاد کا بھی خاتمہ چاہتا ہے۔

پاکستانی فوج اس گروہ کو پچھاڑنے کے لیے ملک کے شمال مغربی علاقوں میں متعدد مرتبہ کارروائیاں کر چکی ہیں جن کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔

پاکستان کی حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو تنازعے کے حل کا بہترین طریقہ قرار دیتی رہی ہے۔ اگرچہ کئی حلقے ایسی کسی بات چیت کی کامیابی پر تحفظات رکھتے ہیں۔

چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ہفتے کو ایک تین رکنی وفد طالبان کے پاس بھیجا جانا تھا جس نے مذاکرات کی باقاعدہ دعوت دینی تھی۔ تاہم ایک روز قبل حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے وفد روانہ نہیں ہو سکا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں