حیاتیاتی کیمیائی اور جوہری، ان تمام غیرروایتی ہتھیاروں کا مقصد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانا ہے، تاہم اس تباہی کی نوعیت اور طریقے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
اشتہار
عالمی سطح پر ایسے معاہدے موجود ہیں جو حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال پر پابندی عائد کرتے ہیں، تاہم اب بھی بہت سی ریاستیں ان انتہائی تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری میں کسی نہ کسی حد تک ملوث ہیں۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کی روک تھام کے لیے بائیالوجیکل ویمپن کنونشن یا بی ڈبلیو سی اور کیمیائی ہتھیاورں کے انسداد سے متعلق عالمی کنوینشن سی ڈبلیو سی موجود ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت ایسے تباہ کن ہتھیار تیارکرنا، حاصل کرنا، ذخیرہ کرنا اور ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا استعمال کرنا، ممنوع ہے۔ ان کنونشنز کا مقصد نہ صرف ایسے ہتھیاروں کی تیاری روکنا تھا، بلکہ موجود ہتھیاروں کی تلفی بھی تھا۔
حیاتیاتی ہتھیار، خوردبینی جانداروں یا نیم جانداروں مثلا وائرس، بیکٹیریا، فنگی یا دیگر زہریلے مادے ہیں، جو دانستہ طور پر بیماری کے پھیلاؤ کے لیے استعمال ہوں۔ ان کا مقصد بڑے پیمانے پر انسانوں، جانوروں اور پودوں کو ہلاک کرنا ہوتا ہے۔ حیاتیاتی مواد مثلاً اینتھریکس بوٹونیم ٹاکسک اور طاعون وبا بن کر کسی علاقے یا ریاست کے نظام صحت کے لیے تباہ کن صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق حیاتیاتی مواد کے ذریعے حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے جب کہ موجودہ دور میں حیاتیاتی دہشت گردی کے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے چند روز بعد امریکا میں انتھریکس جراثیم کے حامل کئی خطوط ڈیموکریٹ سینیٹرز کے علاوہ متعدد میڈیا اداروں کو بھیجے گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور دیگر 17 بیمار ہوئے تھے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بیمار اور مردہ جانوروں کو دشمن کے علاقے میں پھینکا جاتا تھا کہ وہاں لوگ بیمار ہوں اور دشمن کم زور ہو۔ پانی کے کنوؤں کو زہریلا بنانا بھی بیسویں صدی تک بہ طور ہتھیار استعمال ہوتا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چھ سو قبل مسیح میں ایتھنز کے بادشاہ سولون نے کریسا کے محاصرے کے دوران خطرناک بوٹی کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح طاعون سے ہلاک ہونے والے افراد کو کسی علاقے میں پھینکنا بھی کئی صدیوں تک بہ طور ہتھیار استعمال ہوتا رہا۔
دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے طاعون، اینتھریکس اور دیگر بیماریوں کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا۔ جب کہ متعدد دیگر ممالک نے بھی حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے باقاعدہ اقدامات اٹھائے۔
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
9 تصاویر1 | 9
کیمیائی ہتھیار کیا ہیں؟
حیاتیاتی ہتھیاروں کی طرح کیمیائی ہتھیاروں کا بنیادی استعمال بڑے پیمانے پر اموات ہی کے لیے ہوتا ہے۔ کیمیائی ہتھیار دراصل وہ کیمیائی مادے ہیں جو انسانوں اور جانوروں کی موت کا باعث بنتے ہیں۔ گو بہت سے کیمیائی مادے انتہائی خطرناک ہیں، تاہم چند مادے بہ طور کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کے استعمال کی وجہ ان سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے میں مشکلات ہیں۔
کیمیائی ہتھیاروں میں سب سے اہم کلورین اور نظام تنفس پر حملہ آور ہونے والی گیسیں شامل ہیں۔ کلورین کے علاوہ سلفر مسٹرڈ جسے عرف میں مسٹرڈ گیس کہا جاتا ہے، جلد، آنکھوں اور پھیپھڑوں میں جلن کے ذریعے ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ انسانی خون پر حملہ کرنے کے لیے بلڈ ایجنٹس مثلاً ہائیڈروجن سائنائیڈ یا سیانوجن کلورائیڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ انسانی خون میں آکسیجن کی ترسیل روک دیتا ہے۔
اعصاب پر حملہ آور ہونے والے کیمیائی مادے مثلا نوواچوک، سیرین اور وی ایکس وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان سے تحفظ جِلد سے سختی سے جڑے ہوئے ماسک اور حفاظتی لباس کے ذریعے مکمل جسم ڈھک کر ہی ممکن ہے۔