حیاتیاتی تنوع میں کمی سے بیماریوں میں اضافہ
21 دسمبر 2010ہم اس بارے میں بہت کم غور کرتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع انسانی صحت کے لئے کیوں ضروری ہے اور اس سے انسانوں کو کیا فوائد پہنچتے ہیں۔ محققین نے ان سوالات کا جواب Ecosystem services کے نام سے شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں دیا ہے۔ اس رپورٹ میں Ecosystem یا ماحولیاتی نظام کے چار اہم شعبوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں غذا اور پانی کی پیداوار، آب و ہوا اور بیماریوں پر کنٹرول، فصل یا کاشت کی منتقلی میں مدد، روحانی اور تفریحی فوائد شامل ہیں۔ 2004ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے تیار کروائی گئی اس رپورٹ کو ’میلینیم ایکو سسٹم اسسمنٹ‘ کے پروگرام کے تحت تیار کیا گیا تھا۔
چار سال تک دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 1300 محققین نے حیاتیاتی تنوع سے انسانی صحت کو پہنچنے والے فوائد پر تحقیق کرنے کے بعد یہ رپورٹ شائع کی، جس سے پتہ چلا ہے کہ حیاتیاتی تنوع دراصل قدرت کا انمول تحفہ ہے، جو انسانوں کی صحت کے لئے نہایت ضروری اور فائدہ مند ہے۔ اس سلسلے میں نیو یارک کے Bard College سے منسلک ایک محققہ Felicia Keesing نے معروف جریدے Nature میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں یہ کہا ہے کہ ماحولیاتی تنوع ایسی گوناگوں بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جو کسی انفیکشن یا عفونت سے جنم لیتی ہیں۔ محققین کے مطابق اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ دنیا میں حیوانات اور پودوں کی مختلف اقسام کی افزائش میں کمی پیدا ہونے سے انسانوں پر حملے کرنے والے بیکٹیریاز اور وائرس بھی کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لئے بیماریوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انسانی صحت کے لئے ماحولیاتی نظام کے فوائد پر تحقیق کرنے والے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بہت سے پودوں اور حیوانات میں پائے جانے والے مخصوص قسم کے بیکٹیریاز، پیراسائٹس اور فنگس وغیرہ انسانوں کے لئے بہت سی بیماریوں کا سبب بننے والے جراثیموں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جیسے جیسے ان پودوں اور حیوانات کی اقسام کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہیں، ویسے ویسے مختلف بیماریوں کی وجہ بننے والے وائرس اور بیکٹیریاز پھیل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی نیل وائرس مچھروں سے پھیلنے والے وائرس ہیں، جو پرندوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ تاہم یہ وائرس دودھ دینے والے جانوروں اور انسانوں تک بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ وائرس خطرناک قسم کے بخار کا موجب بنتے ہیں، جو اگر بگڑ جائے تو میننجائیٹس یا سرسام کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ محققین اس وائرس پر 2006 ء سے ریسرچ کر رہے ہیں، جن کے نتائج کے بارے میں تین تحقیقی رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔ ان تینوں سے ایک حیران کُن انکشاف ہوا ہے اور وہ یہ کہ دنیا سے پودوں کی مختلف اقسام کی افزائش میں کمی کی وجہ سے مغربی نیل وائرس بُخار سے انسانوں کی صحت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس بارے میں محققین نے امریکہ میں پرندوں کے تنوع میں تیزی سے آنے والی کمی پر ریسرچ کی۔ انہیں یہ پتہ چلا کہ ایسے پرندوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے، جو مغربی نیل وائرس کو اپنے اندر پالنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں میں خطرناک بُخار اور سرسام پیدا کرنے والے مغربی نیل وائرس کو چونکہ اب اپنے جراثیم کی منتقلی کے لئے پرندے نہیں مل پا رہے، اس لئے وہ مچھروں کے ذریعے انسانوں پر حملے کر رہا ہے۔
ایک اور مثال Hanta virus ہے، جو انسانوں کے پھپھڑوں اور گُردوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ اس وائرس کا پسندیدہ شکار White footed Mouse یا سفید پیروں والے چوہے ہوتے ہیں، جو سب سے زیادہ شمالی امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس وائرس کے حامل کُترنے والے جانور خود بیمار نہیں ہوتے بلکہ یہ تاحیات Hanta virus پھیلاتے رہتے ہیں اور اس کا شکار سب سے زیادہ انسان ہوتے ہیں۔ گلہری اور دیگر اقسام کے چوہوں میں یہ وائرس پلتے رہتے ہیں۔ جیسے جیسے ان حیوانوں کی اقسام میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے Hanta virus انسانوں پر زیادہ حملہ آور ہو رہا ہے۔
تحفظ ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کے لئے سرگرم عناصر اور ماہرین اس امر پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں کہ انواع و اقسام کے حیوانات کی حفاظت نہ کی گئی، تو ان کی کمی انسانوں میں گو نا گوں بیماریوں کا باعث بنے گی، جن میں سے اکثر مُہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی