حیض ہے یا نہیں، ٹیچروں کی چیکنگ کے خلاف بھارتی طالبات برہم
15 فروری 2020
بھارتی ریاست گجرات کے ایک انسٹیٹیوٹ کی طالبات کو جبری طور پر اپنے زیر جامہ اتار کر یہ ثابت کرنے پر مجبور کیا گیا کہ وہ ماہواری میں نہیں ہیں۔ اس جبری پڑتال کے خلاف طالبات نے شدید احتجاج کیا ہے۔
اشتہار
نوجوان طالبات کی زبردستی چیکنگ ساہجانند گرلز انسیٹیوٹ میں کی گئی۔ خواتین اساتذدہ نے جن طالبات کی یہ چیکنگ کی اُن کی تعداد 68 بتائی گئی ہے۔ اس تعلیمی ادارے کے ہوسٹل کی رہائشی لڑکیوں کو حیض کے دوران کلاس میں جانے پر پابندی ہے۔ لڑکیوں کی چیکنگ ہوسٹل کے طہارت خانے یا ٹوائلٹس میں کی گئی تھی۔
ساہجانند گرلز انسٹیٹیوٹ مغربی بھارتی ریاست گجرات کے شہر بھوج میں واقع ہے۔
ماہواری کے حوالے سے کی جانے والی چیکنگ کے بعد بھوج شہر کے اس تعلیمی ادارے کی لڑکیوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کیا اور اسے انتہائی شرمناک اور پریشان کرنے والا اقدام قرار دیا۔ طالبات کے مطابق وہ ادارے کی اس حرکت پر جتنی بے عزتی اور شرمندگی محسوس کر رہی ہیں وہ اس کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔
ساہجانند گرلز انسٹیٹیوٹ ایک قدامت پسند ہندو عقیدے کے فرقے سوامی نارائن کے زیر انتظام ہے۔ اس ہندو فرقے کے برطانوی دارالحکومت لندن سمیت دنیا بھر میں کئی شہروں میں مندر ہیں جنہیں عقیدت مندوں کی جانب بھاری رقوم عطیہ کی جاتی ہیں۔
سوامی نارائن ہندو فرقے کے عقائد کے تحت حیض کی حامل کوئی طالبہ کلاس روم میں نہیں جا سکتی اور اُس کا کچن یا باورچی خانے میں داخل ہونے پر بھی پابندی ہے۔ اس حالت میں طالبات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کالج کے مذہبی علاقے سے بھی دور رہیں۔
سوامی نارائن ٹرسٹ کی نگران پراوین پنڈوریا کا کہنا ہے کہ ہاسٹل میں رہائش رکھنے والی طالبات کو انسٹیٹیوٹ کے قواعد و ضوابط سے باضابطہ طور پر مطلع کیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ بتائے گئے اصولوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کریں گی۔
طالبات کے احتجاج کے بعد انتظامیہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس چیکنگ کرنے کی انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انکوائری کمیٹی یہ واضح کرے گی کہ کس ٹیچر کے حکم پر طالبات کی جبری چیک کی گئی تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ بھارت دیہات میں حیض سے متعلق مختلف قدیمی روایات پائی جاتی ہیں۔ بعض دیہات میں خواتین کو ماہواری کے ایام میں علیحدہ سونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ حیض کی صورت میں وہ کسی مندر میں بھی داخل نہیں ہو سکتی ہیں۔
ع ح ⁄ ا ب ا (اے ایف پی)
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔