خاتون صحافی پر جنسی ہتھکنڈوں کا الزام، صدر کے بیٹے کو سزا
22 جنوری 2021
برازیل کی ایک عدالت نے صدر بولسونارو کے بیٹے اور رکن پارلیمان ایڈوارڈو بولسونارو کو جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ انہوں نے ایک مقامی خاتون صحافی پر اہم معلومات کے حصول کے لیے جنسی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا غلط الزام لگایا تھا۔
اشتہار
برازیلیا سے جمعہ بائیس جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے برازیل کی ایک عدالت نے کہا کہ ملکی صدر کے بیٹے نے خاتون صحافی پیٹریشیا میلو پر اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جنسی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا جو الزام لگایا تھا، وہ ایک غیر اخلاقی حرکت بھی تھی اور متعلقہ خاتون کی عزت پر کیا گیا مجرمانہ حملہ بھی تھا۔
برازیل میں صدر بولسونارو انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان ہیں۔ صدر کے چھتیس سالہ بیٹے ایڈوارڈو بولسونارو نے، جو خود بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں، گزشتہ برس الزام لگایا تھا کہ ایک کثیر الاشاعت مقامی اخبار کی ایک خاتون صحافی نے ان کے والد کے خلاف اہم معلومات تک پہنچنے کے لیے اپنے ایک ذریعے کو جنسی اشتعال دلا کر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان الزامات کے بعد خاتون صحافی میلو نے رکن پارلیمان ایڈوارڈو بولسونارو کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا تھا، جس پر اب عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ ایڈوارڈو بولسونارو نے اس صحافی کے خلاف اپنا یہ متنازعہ بیان یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں دیا تھا۔
انہوں نے بعد ازاں اپنا یہی بیان ایک ٹویٹ میں بھی لکھا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ پیٹریشیا میلو صحافت کے نام پر 'غلط اور جھوٹی معلومات پھیلا‘ رہی تھیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صدر بولسونارو کے بیٹے اور رکن پارلیمان ایڈوارڈو بولسونارو نے نا صرف صحافی میلو پر جھوٹا الزام لگایا بلکہ وہ ان کے لیے ہتک عزت کا باعث بھی بنے، جو ایک صحافی کے پیشے اور اس کی کارکردگی کو داغ دار کرنے کی ایک غیر اخلاقی کوشش بھی تھی۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
عدالت نے برازیلین صدر کے بیٹے کو ساڑھے پانچ ہزار امریکی ڈالر سے زائد کی رقم کے برابر جرمانہ کیا ہے، جو انہیں پیٹریشیا میلو کو زر تلافی کے طور پر ادا کرنا ہو گا۔
پیٹریشیا میلو برازیل کی ایک معروف اور ایوارڈ یافتہ خاتون صحافی ہیں، جنہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد کہا، ''ایڈوارڈو بولسونارو کو کیا گیا جرمانہ انصاف کا تقاضا تھا اور آج کا دن برازیل کی سیاست اور غیر جانبدار صحافت کے لیے ایک سنہرا دن ہے۔‘‘ ایڈوارڈو بولسونارو کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا قانونی حق حاصل ہو گا۔
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
تصویر: DW/K. Blazevska
10 تصاویر1 | 10
جج کی صدر کے بیٹے کو تنبیہ
اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے مزید کہا، ''ایک رکن پارلیمان کے طور پر آپ (ایڈوارڈو بولسونارو) قومی اہمیت کے حامل ایک منصب پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جمہوریہ برازیل کے موجودہ صدر کے بیٹے بھی ہیں۔ آپ کو ماضی میں بھی اپنے اس نوعیت کے بیانات میں بہت محتاط رہنا چاہیے تھا اور مستقبل میں تو آپ کو اور بھی احتیاط کرنا ہو گی۔‘‘
اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی خاتون صحافی کے خلاف خود برازیل کے صدر جیئر بولسونارو نے بھی گزشتہ برس فروری میں شدید نوعیت کے ذاتی الزامات لگائے تھے۔ تب صدر نے الزام لگایا تھا کہ اس خاتون نے ان (صدر) کے خلاف اہم معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک اہم شخصیت کو مبینہ طور پر جنسی تعلق قائم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
م م / ع ح (اے ایف پی)
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے پریس فریڈم انڈکس 2018 جاری کر دیا ہے، جس میں دنیا کے 180 ممالک میں میڈیا کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے درجہ بندی کی گئی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال جانیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/N. Khawer
بھوٹان
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔
تصویر: DJVDREAMERJOINTVENTURE
نیپال
ایک سو اسّی ممالک کی فہرست میں نیپال عالمی سطح پر 106ویں جب کہ جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر رہا۔ نیپال بھی تاہم گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ درجے نیچے چلا گیا۔ گزشتہ برس نیپال ایک سوویں نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Maharjan
افغانستان
اس واچ ڈاگ نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس برس کی درجہ بندی میں افغانستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو درجے ترقی کی ہے اور اب عالمی سطح پر یہ ملک 118ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Tone Koene
مالدیپ
اس برس کے انڈکس کے مطابق مالدیپ جنوبی ایشیا میں چوتھے جب کہ عالمی سطح پر 120ویں نمبر پر ہے۔ مالدیپ گزشتہ برس 117ویں نمبر پر رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo(M. Sharuhaan
سری لنکا
جنوبی ایشیا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سری لنکا میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ سری لنکا دس درجے بہتری کے بعد اس برس عالمی سطح پر 131ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: DW/Miriam Klaussner
بھارت
بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی درجہ بندی میں بھارت اس برس دو درجے تنزلی کے بعد اب 138ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
پاکستان
پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔ تاہم اس میڈیا واچ ڈاگ کے مطابق پاکستانی میڈیا میں ’سیلف سنسرشپ‘ میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے کم آزادی بنگلہ دیش میں حاصل ہے۔ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش 146ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache
عالمی صورت حال
اس انڈکس میں ناروے، سویڈن اور ہالینڈ عالمی سطح پر بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ چین 176ویں جب کہ شمالی کوریا آخری یعنی 180ویں نمبر پر رہا۔