خاتون کو جنسی ہراساں کرنے پر دو پولیس اہلکاروں کو جیل
14 جولائی 2020
جرمنی کی ایک عدالت نے ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے اپنے عہدے کاغلط استعمال کرنے والے دو پولیس افسران کو قید کی سزا سنائی ہے۔ تاہم ملزمین کا کہنا ہے کہ خاتون نے انہیں ایسا کرنے کے لیے اکسایا تھا۔
اشتہار
جرمنی کی ریاست تھورنگیا میں ایرفرٹ شہر کی ایک عدالت نے پولیس دفتر کا غلط استعمال کرنے کے لیے دو پولیس افسران کو دو برس تین ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔ پولیس افسران کا کہنا تھا کہ مذکورہ خاتون نے خود تفتیش کے دوران جنسی عمل کے لیے انہیں اکسایا اور صورت حال بے قابو ہوگئی۔ عدالت نے افسران کو اپنے فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل دائر کرنے کی اجازت دی ہے۔
یہ واقعہ ستمبر 2016 کا ہے جب ریاست تھورنگیا کے شہر مارلیشنوسین میں پولیس نے ٹریفک چیکنگ کے دوران ایک خاتون سے گاڑی کے دستاویزات طلب کیے۔ لیکن جب 32 سالہ پولش نژاد خاتون نے کاغذات سونپے تو پولیس کو لگا کہ وہ جعلی ہیں۔ ایک مقامی نشریاتی ادارے کے مطابق اس سلسلے میں پولیس مزید دستاویزات چیک کرنے کے لیے خاتون کے گھر تک ان کے ساتھ گئی۔ پولیس کا دعوی ہے کہ مذکورہ خاتون گھر پر بالکل برہنہ ہوکر اچانک پولیس کے سامنے آگئیں۔
دو پولیس اہلکار جو وہاں گئے تھے ان میں سے ایک کی عمر 23 برس تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اس اچانک صورت حال سے وہ مغلوب ہوگیا۔ نوجوان پولیس افسر نے عدالت میں یہ بات تسلیم کی کہ خاتون کے ساتھ سیکس کرنا اس کی سنگین غلطی تھی لیکن اس کے لیے خاتون نے ہی اسے اکسایا۔
برلن میں ایک خاتون پر حملہ، چونکا دینے والی ویڈیو
00:37
عدالت میں اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ کس طرح نوجوان پولیس افسر کے دوسرے 28 سالہ ساتھی نے اس جنسی عمل کو اپنے موبائل فون کیمرے سے قید کیا اور پھر اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو وہ ویڈیو کلپز دکھائیں۔ بعد میں پولیس افسر نے ان کلپز کو ڈیلیٹ کر دیا تو اس ریکارڈنگ کو دوبارہ واپس لانے کے لیے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے انہیں دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی۔
حالانکہ عدالت نے یہ بات کہی کہ ممکن ہے کہ متاثرہ خاتون نے ہی جنسی عمل کے لیے اکسایا اور پیش قدمی کی ہو، تاہم اس کی وجہ اس کا یہ خوف بھی ہوسکتا ہے کہ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس مقدمے کی گواہ صرف وہی خاتون تھیں جو سماعت کے دوران عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔
حالانکہ سرکاری وکیل نے اس سلسلے میں پولیس افسران کے خلاف ریپ جیسے سنگین الزامات کو ڈراپ کر دیا تھا اور دو برس کی سسپینڈید قید، یعنی ایسی سزا کا مطالبہ کیا گیا تھا جو علامتی ہو اور انہیں جیل نہ جا نا پڑے، لیکن عدالت کا موقف تھا کہ اس طرح کا جرم جہاں کافی حیران کن ہے وہیں پولیس کی شبیہ کوبری طرح سے خراب کرتا ہے اس لیے قصورواروں کو کم از کم دوبرس جیل کی سزا ہونی چاہیے۔
عدالت نے پولیس افسران کو اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل دائر کرنے کا اختیار دیا ہے۔
ص ز / ج ا
ہیمبرگ میں شانزن کا علاقہ کسی میدان جنگ سے کم نہیں
لوٹی ہوئی دکانیں، جلتا ہوا سامان، تیز دھار پانی اور آنسو گیس۔ گزشتہ روز جرمن شہر ہیمبرگ کا یہ حال تھا۔ اس شہر میں دنیا کے بیس اہم ممالک کے سربراہاں اکھٹے ہیں۔ ہنگامہ آرائی میں کئی سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
مظاہروں کا مقصد
مظاہرین سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہوئے ایک ایسے آزادانہ نظام کے حامی ہیں، جس میں پیسے اور حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہو گا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
سیاہ بلاک
ہیمبرگ میں ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے ہنگامہ آرائی میں ملوث بائیں بازو کے سخت گیر موقف رکھنے والے خود کو ’بلیک بلاک‘ یا سیاہ بلاک کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ چند سو افراد آج کل شہ سرخیوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
بلیک بلاک کون ہیں؟
بلیک بلاک عام طور پر سخت گیر موقف رکھنے والے بائیں بازو کے افراد ہیں اور ان میں انارکسٹ یا افراتفری پھیلانے والے بھی شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ باقاعدہ کوئی منظم تنظیم تو نہیں بلکہ احتجاج کا ایک انداز ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ میں لوٹ مار
تشدد پر آمادہ کئی سو افراد نے ہیمبرگ کے علاقے ’شانزن فیئرٹل‘ میں رات پھر ہنگامہ آرائی کی۔ اس دوران دکانوں کو لوٹا گیا اور املاک کو آگ لگائی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
اضافی نفری
تین گھنٹوں کے بعد پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی اور تشدد پر آمادہ ان مظاہرین کو کچھ حد تک پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئی۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
تیز دھار پانی
مظاہرین کے خلاف پولیس کو تیز دھار پانی کا استعمال کرنا پڑا اور چند مقامات پر تو آنسو گیس کے گولے بھی برسائے۔ اس دوران حکام نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضا سے بھی نگرانی جاری رکھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
تبدیلی کا وقت آ گیا ہے
بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں مظاہرین نے کشتیوں کے ذریعے بھی احتجاج کیا۔ تحفظ ماحول کی تنظیم گرین پیس نے پیرس معاہدے سے دستبرداری کے امریکی فیصلے کو تنقید کا نشایا بنایا۔
تصویر: Reuters/F. Bimmer
پولیس پر حملے
مشتعل مظاہرین نے مختلف مقامات پر پولیس پر شیشے کی خالی بوتلیں برسائیں اور پتھراؤ بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ کا حال
ہیمبرگ کا شانزن فیئرٹل خانہ جنگی کے شکار کسی شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حکام کے مطابق اس دوران 213 پولیس افسر زخمی ہوئے جبکہ دو سو سے زائد مظاہرین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Bockwoldt
ہفتے کے دن کا پرسکون آغاز
رات کے مختلف اوقات میں جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے بعد ہفتے کی علی الصبح حالات پولیس کے قابو میں تھے۔ تاہم اس کے بعد مظاہرین نے پھر سے اکھٹے ہونا شروع کر دیا۔