خاشقجی قتل کیس: سعودی عرب کے خلاف امریکا کا خاموش رد عمل
2 مارچ 2021
صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ کے بعد امریکا کا کہنا ہے کہ اس کی توجہ سعودی عرب کے "آئندہ طرز عمل" پر مرکوز ہے۔
اشتہار
امریکی وزارت خارجہ نے پیر یکم مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف ظلم و ستم سے امریکا اور سعودی مملکت کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔
امریکا نے چند روز قبل ہی واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق اپنے خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق ان کے قتل اور پھر تمام شواہد کو تلف کرنے کی منظوری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی دی تھی۔ تاہم اس کے باوجود بھی سعودی عرب کے ساتھ امریکا کا اپنے تعلقات منقطع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
امریکا سعودی تعلقات پر امریکی بیان
امریکا نے سعودی عرب سے اپنے 'ریپیڈ انٹروینشن فورس' پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکا کے مطابق سعودی عرب اس سریع الحرکت فورس کا استعمال اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے کرتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا، ''امریکا کا ہدف تھا ''مستقبل میں اس طرح کا جرم دوبارہ نہ ہونے پائے۔ ہمارا ارادہ شراکت کو مزید مستحکم کرنا ہے۔'' انہوں نے مزید کہا”ہم مستقبل کے طرز عمل پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور اس واقعے کو بطور تخریب نہیں بلکہ بازیافت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔''
امریکا نے سعودی عرب سے ایسی اصلاحات متعارف کرنے کو کہا ہے جس سے مخالفین کے خلاف آپریشن کی ضرورت نہ پڑے اور یہ عوامل خود ہی مکمل طور پر ختم ہو جائیں۔
امریکا نے سعودی عرب کے خلاف کیا اقدام کیا؟
امریکا نے جمعے کے روز جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی عر ب پر بعض پابندیوں کا اشارہ دیاتھا۔ اس وقت صدر بائیڈن نے کہا تھا، '' ہم سعودی عرب کے ساتھ عمومی طور پر کیا کرنے والے ہیں اس کا اعلان ہم پیر یکم مارچ کو کریں گے۔''
نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکا نے خاشقجی قتل کے حوالے سے 76 سعودی شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پہلے ہی سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا، ''جو ممالک بھی صحافیوں، کارکنان اور مخالفین کو ماورائے عدالت ہرساں کرتے یا پھر انہیں نشانہ بناتے ہیں وہاں انسانی حقوق سے متعلق دستاویزات اور ایسے واقعات کی سالانہ رپورٹ کو مزید بہتر کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔''
امریکی ایجنسیوں کی رپورٹ میں کیا ہے؟
امریکا نے جمال خاشقجی قتل سے متعلق جو خفیہ دستاویزات عام کی ہیں اس کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے معاونین ان کے حکم کے بغیر اس طرح کا آپریشن نہیں کر سکتے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''ولی عہد، جمال خاشقجی کو سلطنت کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے اور اسی لیے اگر ان کو خاموش کرانے کے لیے تشدد کی بھی ضرورت پڑے تو وہ اس کے بھی قائل تھے۔''
سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے
02:24
امریکی خفیہ اداروں نے 2018 میں ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل محمد بن سلمان کی ایما کے بغیر اتنا آسان نہیں تھا۔ تاہم ٹرمپ کے دور اقتدار میں اس رپورٹ کو دبا کر رکھا گیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔ ٹرمپ کی انتظامیہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے سعودی عرب پر نکتہ چینی سے گریز کیا کرتی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی شہزاد ہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں اور اقتدار پر ان کی گرفت پر نکتہ چینی کے لیے معروف تھے۔ انہیں 2018 میں استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے اس قتل کے لیے پانچ افراد کو بیس بیس برس قید کی سزا سنائی تھی۔
اشتہار
محمد بن سلمان کون ہیں؟
دو ہزار پندرہ میں محمد کے والد سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد سے ہی محمد بن سلمان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ سعودی حکومت کی باگ ڈور ایک طرح سے انہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ان کے پاس وزارت دفاع سمیت کئی اہم وزارتیں بھی ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ جب سے محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے اسی وقت سے مملکت میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں بھی مزید اضافہ ہو نا شروع ہے۔
ان پر نکتہ چینی کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یمن پر انہوں نے ہی موجودہ مہلک جنگ مسلط کر رکھی ہے اور قطر کی ناکہ بندی بھی انہوں نے ہی کروائی تھی۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟