خاشقجی کا قتل امریکی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، روحانی
25 اکتوبر 2018
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا بہیمانہ قتل امریکا کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ بات انہوں نے ایرانی کابینہ کے اجلاس کی ملکی سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی کارروائی کے دوران کہی۔
اشتہار
ایران کے صدر روحانی نے اپنے بیان میں کہا،’’میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی ملک کے لیے اس قسم کی کارروائی کرنا امریکا کی مدد کے بغیر ممکن ہو سکتا ہے۔ خاشقجی کے قتل سے پہلے یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ اس دور میں بھی ایسی ظالمانہ کارروائی اتنے منظم طریقے سے کی جا سکتی ہے۔‘‘
روحانی کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسن سفاکانہ قتل کی منصوبہ بندی ایک ادارے نے کی تھی۔ ایرانی صدر نے سعودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا،’’ وہ قبائلی گروپ جو اس وقت سعودی عرب پر حکمران ہے محدود سکیورٹی پر انحصار کرتا ہے اور یہ سیکیورٹی مارجن امریکا کی حمایت ہے۔ یہ سپر پاور امریکا ہی ہے جو ریاض حکومت کی اعانت کر رہا ہے۔‘‘
سعودی حکام کی جانب سے ہفتہ 20 اکتوبر کو یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ سعودی حکومت کے نقاد صحافی جو کئی روز سے لاپتہ تھے، استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں دو اکتوبر کو مارے گئے تھے۔ قبل ازیں سعودی حکام کا یہی کہنا تھا کہ جمال خاشقجی قونصل خانے میں اپنا کام مکمل کر کے وہاں سے واپس لوٹ گئے تھے۔
جمال خاشقجی امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے تھے۔ سعودی حکومت کو خاشقجی کے قتل کے معاملے پر شدید عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ منگل کے روز امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کو جس انداز میں چھپانے کی کوشش کی گئی، وہ اپنی نوعیت کی بدترین مثال ہے۔
ایران خطے میں اپنے حریف ملک سعودی عرب پر عالمی پیمانے پر ہونے والی اس تنقید پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور بحرین نے پاسداران انقلاب ایران کو گزشتہ روز دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی نیوز ایجنسی کے مطابق اس کے ساتھ ہی ایران کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی عبدالرضا شہلائی کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل اسماعیل کوسری نے کہا،’’ایسے اقدمات اٹھا کر سعودی حکومت ملکی اور بین القوامی سطح پر لوگوں کی توجہ خاشقجی کے قتل سے ہٹانا چاہتی ہے۔‘‘
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔